یہ خواتین معاشی آزادی کے لئے اور خود مختاری کے لئے ان ٹیکنالوجیز کو اسی طرح استعمال کرتی ہیں جیسے کے مرد تاہم انکو جو کچھ جھیلنا پڑتا ہے وہ وہ نہیں جو مرد جھیلتے ہیں۔ ان میں سے کئی کی زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں اور انہیں اس کی ایسی معاشرتی قیمت چکانی پڑتی ہے کہ وہ عبرت کا نشان بن جاتی ہیں۔
بی بی سی نے اسی حوالے سے ایک خصوصی رپورٹ تحریر کی ہے جس میں وہ بیگو لائیو نامی آن لائن ہوسٹنگ کی ایپ کے لئے کام کرنے والی خواتین جو کہ جنسی استحصال اور ہراسگی کا شکار ہوئیں۔
کے ایک نجی سکول میں معمولی تنخواہ پر بطور استاد کام کرنے والی ایک خاتون نے بتایا کہ وہ ٹیکنالوجی سے زیادہ واقف نہیں تھیں البتہ سوشل میڈیا کی بہت شوقین تھیں۔
ان کی دوست نے انھیں لائیو سٹریمنگ ایپ ' بیگو لائیو' سے متعارف کروایا۔
انہوں نے بیگو لائیو 2018 میں استعمال کرنا شروع کی اور اس پر آنے کے مقصد بس اچھا وقت گزارنا تھا۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد میں بیگو لائیو کی ہوسٹ یعنی میزبان بن گئی اور بیگو پر لائیو آکر لوگوں کو محظوظ کرنے لگیں، لوگ ان سے باتیں کرتے اور وہ آپ کو ورچوئل ڈایمنڈز کی شکل میں گفٹ بھیجتے ہیں جنہیں وہ اصل رقم ادا کر کے خریدتے ہیں
وہ اپنے آن لائن سیشن کے دوران اپنا مکمل چہرہ نہیں دکھاتی تھیں۔
بیگو پر ہر کوئی اپنا لائیو سیشن کر سکتا ہے لیکن آپ اس سے صرف اسی صورت پیسے کما سکتے ہیں جب آپ بیگو کے نامزد نمائندوں جنہیں 'ریکروٹر' کہا جاتا ہے کے ساتھ اپنے آپ کو رجسٹر کروائیں۔
بی بی سی کو انہوں نے بتایا کہ کہ شروع شروع میں تو سب اچھا تھا۔ میں اس کے ذریعے لوگوں سے باتیں کرتی تھی پھر ایک مرتبہ میرے شوکاسٹ پر ایک شخص آیا جس نے ایک بڑی رقم میرے پروگرام پر خرچ کی اور بعد میں ان باکس میں میسج کیا اور مجھ سے کہا کہ میں نے آپ پر اتنی بڑی رقم خرچ کی ہے جس کے عوض میری دوستی کا خواہاں ہے جب کہ اسنے تصاویر بھی طلب کیں۔
جب اس خاتون نے کہا کہ جو کچھ خرچ کیا گیا وہ صرف کی اپنی منشا تھی ۔ جس پر وہ بھڑک گیا۔
وہ بتاتی ہیں کہ اس نے مجھ کہا کہ تم بچی نہیں ہو تمہیں نہیں پتہ کہ کوئی فضول میں کسی پر اتنا خرچہ نہیں کرتا اب یا تو تم میری بات مانو ورنہ جو پیسے میں نے تمہاری براڈکاسٹ پر خرچ کیے ہیں مجھے وہ واپس کرو۔
بیگو کا نظام کچھ یوں چلتا ہے کہ یہاں ناظرین اور سامعین جو رقم ورچوئل ڈائمنڈز کی شکل میں خرچ کرتے ہیں وہ میزبان کی اکاونٹ میں 'بینز' کی شکل میں ڈال دی جاتی ہے اور ان بینز کی تعداد کے حساب سے بیگو کمپنی کی جانب سے ان کو مہینے کے آخر میں رقم ادا کر دی جاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب میں نے اس کے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا تو اس نے مجھے دھمکانا شروع کر دیا۔ اس نے کہا کہ یا تو میں اس کے پیسے واپس کروں ورنہ وہ میرے گھر آجائے گا اور وہ میری جعلی تصاویر بنا کر لیک کر دے گا اور مجھے بد نام کرے گا۔ سب سے بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سب میں کوئی آپ کی مدد نہیں کرتا بیگو بھی نہیں۔ انکو وہ رقم مکمل نہیں ملی جو اسنے دی تھی لہیذٰہ انہوں نے وہاں سے جانے میں ہی عافیت سمجھی۔ بیگو پر ہوسٹنگ ہی چھوڑ دی۔
ایک اور لڑکی جو کہ 2017 میں پنجاب یونیورسٹی کی طالب علم تھیں۔ اپنے تعلیمی خرچے پورے کرنے کے لیے وہ کسی پارٹ ٹائم جاب کی تلاش میں تھیں جب انھیں بیگو لائیو کے بارے میں معلوم ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے جب بیگو استعمال کرنا شروع کیا تو اس وقت بیگو پر موجود مواد بھی کافی اچھا اور دلچسپ ہوتا تھا۔ پھر کچھ عرصے بعد ’پنشمنٹ پی کے‘ کا سلسلہ شروع ہوا جہاں دو بیگو میزبان ایک ساتھ آن لائن آتے ہیں اور مقابلہ کرتے ہیں کہ کس پر زیادہ پیسے خرچ کیے جائیں گے۔ پھر جیتے والا ہارنے والے کو ایک سزا دیتا ہے جو اسے پوری کرنا ہوتی ہے۔
’مجھے جس نے کام دلوایا تھا یعنی کہ ریکروٹر نے میرا ایسا ہی ایک مقابلہ ایک اور میزبان کے ساتھ رکھوایا جو آج کل بیگو پر کافی مشہور ہے۔ میں یہ مقابلہ ہارگئی جس کے بعد جیتنے والے لڑکے نے کہا کہ میں بطور سزا کیمرے کی طرف اپنی کمر کر کے سٹ سٹینڈ ۔ مجھے یہ سزا نہایت غیر مہذب لگی اس لیے میں نے اسے کرنے سے انکار کر دیا۔ اس لڑکے نے لائیو کوریج کے دوران ہی مجھ سے بدتمیزی کرنا شروع کردی جس کے بعد میں نے سیشن ختم کر دیا۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں سائبر قوانین موجود تو ہیں لیکن ان کی سمجھ بوجھ اور پھر ان پر عمل درامد بھی بہت مشکل ہے۔ ایسے میں اتنی جدید ایپس کے ذریعئے ہونے والے جنسی استحصال کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ بڑے پیمانے پر آگہی کی مہمات چلائی جائیں۔