پشتونوں کو باچا خان جیسے عدم تشدد کے حامی، ترقی پسند سوچ والے رہنما بھی ملے ہیں اور دہشت گردی اور انتہا پسندی کے وسیع و عریض نیٹ ورک بنانے والے حقانی بھی۔ خدائی خدمت گار کے نایابِ گوہر مخلص مددگار ملتے رہے ہیں جو قبائلی، پسماندہ قوم کو علم و انصاف کی راہ دکھانے میں کوشاں رہے ہیں اور دہشت گردی، انتہا پسندی اور مذہبی بنیاد پرستی کو اپنا کے فروغ دے کر بے گناہ انسانوں کا قتلِ عام اور سرسبز سرزمین کو ویران، بم زدہ بنانے والے غالباً ایک ساتھ یا کم و بیش دھیرے دھیرے ملتے رہے ہیں۔
یوں کہہ لیں کہ ایک ہی قوم میں الفاظ، متضاد ایک ساتھ آفتاب ہوتے رہے ہیں۔
ایک ہی زبان بولنے والے، ایک ہی قومیت کی چادر اوڑھے ایسے بھی ملے ہیں جو اپنی جنت نظیر سوات و وزیرستان کو تباہ کرنے پر بضد رہے ہیں۔ وہاں کی حقیقی آوازوں، حق کی آوازوں کو دبانے پر تلے رہے ہیں۔ گو کہ یہ چاہتے تو کچھ اور تھے مگر کر کچھ اور رہے ہیں۔ ان کی حرکات ایسے جیسے اپنے گلابوں کے سامنے کانٹے سجانا، اپنی مٹی کو اپنے ہاتھ سے بارود بنانا وغیرہ وغیرہ۔
لالچ چیز ہی ایسی ہے جو معصوم چہروں کو خوفناک بنا دیتی ہے۔ اپنی قوم کی غلط تشریح دنیا کے سامنے رکھ دیتی ہے۔ بہرحال جس چیز سے لالچ مٹنا چاہئیے اُسی میں لالچ گھسا دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ جنّت۔۔۔
لیکن کہتے ہیں نا کہ مظلوم، محکوم معاشرے اور قوم کا نجات دہندہ آئے گا۔
اقبال جسے مردِ مومن کہتے تھے اور پشتون جسے منظور کہتے ہیں۔ تلفظّ مشترک اگرچہ نہیں ہیں مگر اصطلاح ایک ہے۔
لوکل وین میں سفر کرنے والے منظور کو بیرونی سہولت کار کہا جاتا ہے۔ تعجب ہے ایک بیرونی سہولت کار کے پاس اپنی گاڑی نہیں، ذرائع آمد و رفت کی اچھی سہولیات نہیں۔ سات مرلہ مکان، لگژری گاڑی اور پُرآسائش زندگی سے محروم ہے۔
ہزاروں کا مجمع بن بلائے منظور کو دیکھنے پنجاب میں اُمڈ آتا ہے۔ اسلام آباد میں منظور کی آمد سے قبل پہنچ جاتا ہے۔ سہراب گْوٹھ کو لبرٹی بنا دیتا ہے اور وزیرستان میں جوق در جوق شرکت کرتا ہے لیکن اُن میں سے ایک بھی واپسی پر چیک وصول نہیں کرتا۔
البتہ یہ کھوج ابھی باقی ہے کہ منظور کے بیرونی فنڈ کہاں خرچ ہو جاتے ہیں۔
منظور کی تقریروں میں ایک ایسا جادوئی کرشمہ ہے جو کئی پولیس تھانے کی پرچیاں وراثت میں لے آتا ہے۔
جن تھانوں میں منظور کو غدار، ورغلانے والا، دہشت گرد اور بیرونی ایجنٹ جیسے ناموں سے لکھا جاتا ہے اُسی تھانے کے سپاہی منظور کے ساتھ یکجہتی کرنے آ جاتے ہیں۔
نواب خیر بخش مری ناامیدی کو موت کہتے تھے۔ تو صاحبِ تخت و تاج شکر مناتے رہیں کہ منظور نا امید نہیں ہے۔
اگرچہ نقیب محسود کو انصاف نہیں ملا۔ خڑکمر کے شہیدوں کو ایوانِ عدل نے انصاف نہیں دیا۔ پشتون بیلٹ کے پرامن کارکنوں کے قاتل آزاد ہیں۔ منظور کا دیش پھر بدامنی اور دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے لیکن پھر بھی منظور وہی کچھ بول رہا ہے جو پانچ سال قبل بولا کرتا تھا۔
شکر کریں کہ منظور سیاست دان نہیں، سیاسی کارکن ہے۔ ورنہ سیاست دان اُسی ہوا کے ساتھ لپٹ جاتے ہیں جس میں وزارت کی بُو آتی ہو۔
شکر کریں یہاں وفاداری وزارت کی مرہونِ منّت نہیں ہے۔
ویسے یہاں وزارت کہاں ہے۔ یہاں بس انسانوں کی جبری گمشدگی، ماورائے آئین قتل، ٹارگٹ کلنگ کے خاتمے کا پنڈال ہے۔
منظور اُس نازک گروہ سے بھی نہیں جہاں دو دن کی اسیری ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے۔
منظور تو بس ایک غیر مسلح پشتون ہے جو قومی بقا اور انصاف کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اُس بیانیے کو ختم کروا رہا ہے جو مسلح لوگوں اور نامعلوم پشت پناہوں نے مل کے رچا رکھا ہے۔
منظور کے ساتھ اب تو قانون نافذ کرنے والے ایک ہاتھ ہیں مگر قانون نافذ کروانے والے کب تک ہاتھ میں ہاتھ دیے بیٹھے رہیں گے۔
لاجواب حقیقت ہے کہ غیر مسلح پشتون کی نسبت مسلح پشتون یک ہاتھ ہے، یک آواز ہے۔
یوسف بلوچ کالم نگار ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔