شادی میں مابین معاشی فرق:ایک معاشرتی زہر

شادی میں مابین معاشی فرق:ایک معاشرتی زہر
شادی کسی بھی مرد یا عورت کیلئے زندگی کا ایک اہم ترین رشتہ ہوتا ہے۔ رشتہ ازدواج میں بندھنے کے بعد میاں بیوی ایک دوسرے کیلئے ہر طرح کی مشکلات کے خلاف ڈھال بن جایا کرتے ہیں۔ لیکن یہاں میں آپ کو ایک ایسی کہانی بیان کروں گا جو آپ کو بتائے گی کہ کیسے شادی کے اس مقدس رشتے کو مالی مرتبے اور حیثیت کے ساتھ نتھی کرنے سے لوگوں کی زندگیاں برباد ہو جاتی ہیں۔



لاہور کی ایک کاروباری شخصیت کا 24 سالہ بیٹا شاریم ایک 20 سالہ لڑکی عالیہ سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے والدین سے کہا کہ وہ عالیہ کے گھر والوں سے ملیں اور رشتے کی بات طے کریں۔ لیکن دونوں خاندانوں کے مابین معاشی فرق کے باعث شاریم کے والدین اسے اپنی محبت سے شادی کرنے کی اجازت دینے سے ہچکچا رہے تھے۔ عالیہ غریب ماں باپ کی بیٹی تھی۔ اس کا باپ ایک فیکٹری میں مزدوری کرتا تھا اور بمشکل گھر کے اخراجات پورے کر پاتا تھا۔

ایک دن عالیہ سکول سے گھر لوٹ رہی تھی تو اسے چند اوباش لڑکوں نے ہراساں کیا۔ عالیہ کے والدین اس واقعے سے خوفزدہ ہو گئے اور انہوں نے عالیہ کی فوری شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ دوسری جانب شاریم اپنے گھر والوں کو کوششوں کے باوجود عالیہ کے گھر والوں سے رشتے کی بات کرنے پر آمادہ نہیں کر پایا۔ عالیہ کی شادی ایک 35 برس کے شخص سے ہو گئی جو اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے چکا تھا اور عالیہ اس کی دوسری بیوی بن گئی۔ وہ آدمی نامرد تھا اور ان کی ازدواجی زندگی عمروں میں بے پناہ فرق کے باعث تباہی کا شکار ہو گئی۔ پانچ برس بعد عالیہ کی اس شخص سے طلاق ہو گئی اور وہ اپنے والدین کے گھر واپس آ گئی۔ عالیہ کے والدین کے گھر واپسی کے بعد ہمسایوں نے اس کی زندگی میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ معاشرے نے اس کی زندگی میں زہر گھولنا شروع کر دیا اور پورے علاقے میں یہ بات پھیل گئی کہ عالیہ کو طلاق اس لئے ہوئی کہ اس کا اور بھی افراد کے ساتھ معاشقہ تھا۔ عالیہ کے بارے میں اس طرح کی باتیں پھیلنے کے بعد عالیہ کو دس سال بعد بھی کوئی رشتے کا پیغام نہیں آیا۔ پھر اس کے والد کا انتقال ہو گیا۔ گھر چلانے کی ساری ذمہ داری عالیہ کے کاندھوں پر آن پڑی جو اب اپنی والدہ کے ساتھ رہتی تھی۔

حالات سے مجبور ہو کر وہ وہ جنس فروشی پر مجبور ہو گئی۔ ایک دن کام سے واپس گھر جاتے ہوئے عالیہ کی ملاقات شاریم سے ہو گئی۔ شاریم کے پوچھنے پر عالیہ نے اسے اپنی زندگی کہ ساری روداد سنا ڈالی اور اسے اپنے ساتھ شادی کرنے کا کہا۔



شاریم جو کسی زمانے میں عالیہ کیلئے جان بھی دے سکتا تھا اس نے انکار کر دیا اور اس کو چھوڑ کر چلتا بنا۔ یہ منافقت دراصل مردانہ حاکمیت کے تصور سے جنم لیتی ہے جو عورت کو اس کے مالی حالات کی مجبوریوں اور معاشی عوامل کے تناظر میں پرکھنے کے بجائے سماج کی بنائی گئی اخلاقیات کی کسوٹی پر پرکھتا ہے۔ اگر ہم مرد خواتین کی عزت نہیں کر سکتے تو انہیں تعلیم اور معاشی سرگرمیوں کے مواقع بھی نہیں دینے چاہئیں کیونکہ معاشرے میں خواتین کے معاشی کردار کی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ہمیں اپنے رویوں پر نظرثانی اور اپنے آپ کو بطور انسان بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔