ملک میں گذشتہ 19 سالوں میں ہزارہ برادری کے 3 ہزار سے زائد افراد قتل جبکہ ہزاروں ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے

ملک میں گذشتہ 19 سالوں میں ہزارہ برادری کے 3 ہزار سے زائد افراد قتل جبکہ ہزاروں ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں انسانی حقوق کے کارکنوں، سیاسی پارٹیوں کے ورکروں، صحافیوں اور ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے جمعے کے روز شمعیں روشن کر کے ہزارہ نسل کشی میں مارے جانے والے لوگوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ریاست سے مطالبہ کیا کہ ملک کے مختلف علاقوں میں بسنے والے ہزارہ قبیلے کو نہ صرف تحفظ دیا جائے بلکہ قتل عام میں ملوث تمام قاتلوں کو سزائیں دی جائیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے ایک پریس ریلیز جو میڈیا کو فراہم کی گئی، اس میں مؤقف اپنایا گیا کہ گذشتہ 19 سالوں میں ملک بھر میں ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے 3 ہزار افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک ہزار لوگ معذور ہو چکے ہیں اور ہزاروں نوجوان ملک چھوڑ چکے ہیں۔ مگر، ان تمام حملوں میں ملوث کسی شخص کو سزا نہیں دی گئی۔

ہزارہ کمیونٹی کے نوجوانوں نے اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے جنوری اور فروری 2013 میں علمدار روڈ کوئٹہ اور کرانی روڈ ہزارہ ٹاؤن میں ہلاک ہونے والے 240 افراد کو 7 سال پورے ہونے پر خراج عقیدت پیش کیا گیا اور ملک میں ہزارہ نسل کشی کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے ریاست سے مجرمان کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا۔

انسانی حقوق کی کارکن طاہرہ عبداللہ، فرزانہ باری اور فاطمہ نے 10 جنوری 2013 کو علمدار روڈ پر خودکش حملے میں ہلاک ہونے والے انسانی حقوق کے کارکن عرفان خودی کے انسانی حقوق کے لئے کی گئی کاؤشوں کو سراہاں اور کہا کہ انسانی حقوق کے کارکن عرفان خودی کو ہمیشہ اپنے دلوں میں زندہ رکھیں گے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں نے ریاست پاکستان اور بلوچستان کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ہزارہ کمیونٹی کی نسل کشی کو روکنے کے لئے عملی اقدامات کریں اور ملک میں موجود دہشت گرد تنظیموں کا صفایا کریں۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔