چند یوم قبل 6 جنوری کو امریکی صدر ٹرمپ کی ایما پر ان کے ووٹروں کی بڑی تعداد امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں اکٹھی ہوئ اور ان کے اکٹھے ہونے کا بنیادی مقصد ٹرمپ کے بقول الیکشن میں دھاندلی پر احتجاج کرنا تھا۔اس دن کانگریس نے سرکاری اور رسمی طور پر نئے منتخب صدر بائیڈن کی جیت کا اعلان کرنا تھا۔صدر ٹرمپ نے اپنی ٹویٹ کے ذریعہ مظاہرین کو بلایا اور پھر جو کچھ ہوا اس کو ساری دنیا نے دیکھا۔
اس سےقبل اگر صدر ٹرمپ کے واویلے کا پس منظر بھی جان لیا جاۓ تو بہتر ہے۔مجھے اس دفعہ پہلی بار بذات خود امریکی صدارتی الیکشن میں امریکہ میں موجود ہونے کا اتفاق ہوا۔ نومبر کے مہینہ میں الیکشن کے بعد جب نتیجہ موصول ہونا شروع ہوا تو ٹرمپ نے الیکشن کی چوری اور دھاندلی کا واویلا مچانا شروع کر دیا اور اس کے بعد ہر دوسرے دن الیکشن کے نتیجے کو نا ماننے اور خود کو جیتا ہوا صدر قرار دینے کے بیانات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔
2020 کے انتخاب میں جس بات نے صدر ٹرمپ کو دھاندلی کا واویلا مچانے پر مجبور کیا وہ یہ بھی تھی کہ اس دفعہ انہیں پچھلی بار سے زیادہ مجموعی ووٹ پڑے۔ مگر وہ یہ ماننے پر مجبور نہیں کہ نو منتخب صدر بائیڈن کو اس سے بھی زیادہ ووٹ پڑے ہیں اور وہ بازی جیت چکے ہیں۔اگر دھاندلی کا ذکر کیا جاۓ تو 2000 میں بھی دھاندلی کا شور اٹھا تھا مگر صرف چند روز کے بعد ہی جارج بش کی جیت کو تسلیم کر لیا گیا تھا جبکہ اب ٹرمپ ابھی تک جیت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور علم بغاوت بلند کرنے کے اعلان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ صدر ٹرمپ کے اکثریتی ووٹ نسل پرست سفید فاموں کے ہیں جو سفید چمڑی کے علاوہ کوئ اور رنگ اس ملک میں دیکھنا پسند نہیں کرتے اور ان میں سے بھی اکثریت کم پڑھے لکھے لوگوں کی ہے۔ ٹرمپ نے مختلف ریاستوں کو اپنی حمایت کے لیۓ آمادہ کرنے کی کوشش کی،جیسے کہ ریاست جارجیا کے ایک افسر اعلی کے ساتھ ان کی گفتگو بھی منظر عام پر آئ مگر اس سلسلے میں بھی ان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔عدالت عظمی نے بھی ٹرمپ کا ساتھ نہ دیا۔اس سب سے مایوس ہو کر ٹرمپ نے اپنے ٹویٹس کو مزید زہر آلود کرتے ہوۓ اپنے ووٹروں کو 6 جنوری کو دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی اکٹھا ہونے کا ٹویٹ کیا۔
مظاہرین نے واشنگٹن میں اکٹھے ہو کر پرامن احتجاج کرنے کی بجاۓ کانگریس اور سینٹ پر دھاوا بول دیا اور حیرت کی بات ہے کہ وہاں پر موجود پولیس نے بھی ان کے راستے میں رکاوٹ بننے کی کوشش نہیں کی بلکہ کچھ پولیس والوں کے ساتھ بلوائیوں نے سیلفیاں بھی بنوائیں۔جب اس سب کو روکنے کے لیۓ دارالحکومت میں نیشنل گارڈ تعینات کرنے کے حوالے سے عمل کرنے کا سوچا گیا تو وہاں بھی صدر ٹرمپ نے کوئ حکم نامہ جاری نہ کیا جس کی وجہ سے نائب صدر پینس کو مجبوراً نیشنل گارڈ کی تعیناتی کا حکم نامہ جاری کرنا پڑا اور انتظامیہ کو شام 6 بجے کے بعد کرفیو کے نفاذ کا اعلان کرنا پڑا۔
اس سب کے بعد اگرچہ ٹرمپ نے ایک ویڈیو ٹویٹ کی جس میں بدستور الیکشن کے چوری ہونے کا رونا روتے ہوۓ جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا اور مظاہرین کو گھروں کو واپس جانے کا کہہ دیا گیا ۔ان کی اس ویڈیو کے بعد بھی وہ اس بات پر بدستور قائم رہے اور ٹویٹ کر کے دنیا کو بتایا کہ وہ امریکی جمہوری روایات کے برخلاف عمل کرتے ہوۓ نو منتخب صدر بائیڈن کے تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کریں گے۔
ان تمام ٹویٹس اور واقعات کے بعد فیس بک اور ٹویٹر نے ان کے اکاؤنٹ عارضی طور پر بلاک کر دیے اس کے بعد ٹویٹر نے عالمی طاقت کے طاقتور مگر بےوقوف صدر کا ٹویٹر اکاؤنٹ نفرت کو پھیلانے کی وجہ سے مستقل طور پر بلاک کر دیا۔
صدر ٹرمپ کے ان تمام بیانات اور واویلے کے نتیجہ میں جہاں ان کی ذاتی طور پر پوری دنیا میں جگ ہنسائ ہوئ وہاں عالمی طاقت امریکہ کے جمہوری نظام کے لیۓ بھی پوری دنیا میں وہ جگ ہنسائ کا باعث بنے۔ایسے واقعات امریکہ کی 200 سال سے زائد کی جمہوری تاریخ میں کبھی نہیں ہوۓ۔مگر اس سے ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئ کہ ٹرمپ کے ان بے وقوفانہ اور نفرت بھرے اقدامات کے باوجود جمہوریت کی جیت ہوئ اور کچھ ایسے لوگ بشمول میرے جو ٹرمپ سے بعض وجوہات کی بنا پر ہمدردی بھی رکھتے تھے وہ بھی ان واقعات کے بعد ان کی نفرت اور غیر جمہوری سوچ کے خلاف ہو گۓ۔
کسی دوست نے تو ازراہ مذاق یہاں تک کہہ دیا کہ ٹرمپ کو چاہیۓ کہ نواز شریف کے پہلو میں لندن جا کر بیٹھ جائیں اور دن رات یہی پوچھیں کہ، مجھے کیوں نکالا؟
بہرحال ٹرمپ کے ان اقدامات سے جہاں ان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا وہاں اس بات کو بھی ماننا پڑے گا کہ ایک مخصوص طبقے کے ذہنوں میں نفرت پیدا کرنے کا سہرا بھی ان کے سر ہے۔
امریکہ میں قانون کی حکمرانی قائم ہے جس کی وجہ سے صدر ٹرمپ کی پھیلائ ہوئ نفرت کے باوجود بلوے اور توڑ پھوڑ کو بروقت قابو کر لیا گیا اور اس سلسلہ میں گرفتاریاں جاری ہیں۔
آخر میں جمہوریت جیت گئ اور عوام کی طاقت سے منتخب صدر بائیڈن کامیاب ہو گۓ جبکہ ٹرمپ اپنی نفرت سمیت ناکام ہو گۓ۔
احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔