عمران خان جنازوں میں شرکت کیوں نہیں کرتے؟

عمران خان جنازوں میں شرکت کیوں نہیں کرتے؟
کس عجیب دیس کے ہم شہری ہیں۔ ہزارہ شیعہ جوانوں کے ہاتھ پیر باندھ کر ان کو ذبح کیا گیا۔ معلوم نہیں کتنے ہزارہ دوستوں کو فرقہ واریت اور جنگی سیاست اور معیشت کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ بلوچستان بہت ہی بدنصیب دھرتی ہے جہاں پر مائیں، بہنیں، بیویاں اور بیٹیاں جوانوں کی لاشوں اور لاپتہ افراد کے درد پر بین کرنے کے لئے پیدا ہوتی ہیں۔

جوانوں کی لاشوں کو سڑکوں پر رکھ دیا گیا اور دل کو دہلا دینے والی چھ دن اور راتیں خواتین، بوڑھے اور بچے منفی ڈگری کی سردی میں عمران خان اور علی محمد خان کی ریاست مدینہ میں ذلیل اور خوار ہو گئے۔ مظلوموں کی آہ و بکا پر نہ تو آسمان رویا اور نہ مقتولین کا قاتل حاکمین وقت کو ٹھہرایا گیا۔ کوئٹہ بائی پاس پر بیٹھے 2001 سے مظلوم ہزارہ برادری کے لوگوں پر اپنوں اور دشمنوں دونوں نے اپنی ہر دھرتی جہنم بنا رکھا ہے۔

مظاہرے میں بڑی دردناک اور دل کو چیرنے والی تصاویر جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو ملک کے دوسرے شہروں میں بھی عوام سڑکوں پر آ گئے اور ساتھ سیاسی قیادت بھی مظاہرے کی جگہ پر ایک ایک کر کے پہنچنے لگی۔ اگر نہیں گئے تو صرف انا اور ضد کے بادشاہ ملک کے حکمران عمران خان۔ انہیں بار بار کہا گیا مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔

لواحقین کے مطالبات تو وزیراعلیٰ اور بیوروکریسی نے پورے کیے تھے مگر وہ مطالبہ کر رہے تھے کہ چونکہ عمران خان ملک کے وزیراعظم ہیں، وہی دلاسے اور تسلی کے لئے آئیں۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں پر لاشوں نے بھی پھر احتجاج کیا اور جس دن مطالبہ زور پکڑ رہا تھا اور عوام بھی توقع کر رہے تھے کہ وزیر اعظم ضرور دھرنے میں جائیں گے، اسی دن ترکی ڈرامہ ارطغرل کی ٹیم کے ساتھ ملاقات ضروری تھی۔ مظاہرین سے جب ڈی سی کوئٹہ مذاکرات کرنے آئے تو بزرگوں نے ان کو کہا کہ تیرے پاس نے بولنے کو اور نہ کچھ کرنے کو باقی بچا ہے کیوںکہ لاشوں کو اٹھاتے اٹھاتے ہم تھک چکے ہیں اور اس کے بعد سکیورٹی فورسز اور حکومت کے خلاف بھی نعرہ بازی شروع ہوگئی۔ ایک خاتون نے بھی تقریرکرتے ہوئے کہا کہ ہزارہ ٹاؤن والے دن میں پانچ کی بجائے چھ نمازیں پڑھتے ہیں۔ جنازہ نماز ہماری روٹین کا حصہ بن چکا ہے۔

عمران خان لاشوں کو دفنانے سے پہلے کیوں نہیں گئے؟ یہ واقعہ تو ڈومیسٹک سے بین الاقوامی بن چکا تھا۔ مگر حاصل کہانی کیا ہے؟ ڈاکٹر فاروق مذہبی سکالر اور معروف ماہر نفسیات ہیں جو کہ جاوید غامدی صاحب کے بھی شاگرد رہ چکے تھے۔ دہشتگردی کی جنگ میں سوات ری ہیب سنٹر میں جنگجوؤں کو جنگ سے نفرت کروانے پر کام بھی کرتے تھے۔ بعد میں نامعلوم افراد نے انہیں مردان میں قتل کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر فاروق، عمران خان کے اولین دوستوں میں سے ایک تھے اور استاد بھی تھے مگر عمران ان کے جنازے میں شرکت نہ کر سکے۔ حالیہ میں دو دہائیوں کے دوران ان کے قریب ترین دوست نعیم الحق کے جنازے میں بھی نہیں گئے تھے۔ دوست یا استاد کے جنازے میں شرکت نہ کرنا یا کرنا ذاتی فعل ہے مگر بعض لوگوں کو نیکرو فوبیا ہوتا ہے۔ ماہرِ نفسیات اعزاز جمال کے مطابق یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں انسان مردہ جسم سے وابستہ کفن، قبر، غسل اور لحد سے ڈرتا ہے۔

عمران خان کی سابقہ بیوی ریحام خان نے اپنی کتاب میں بھی ایسے واقعات کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ عمران خان جنازوں میں شرکت نہیں کرتے۔ ڈاکٹر فاروق ہی نے پی ٹی آئی کا پہلا منشور ڈرافٹ کیا تھا اور اسی جماعت کے اولین بانی کارکنوں میں سے تھے۔ اعزاز جمال کہتے ہیں کہ اس وقت میرے چار مریض ایسے ہیں جو جنازوں میں شرکت نہیں کرتے تھے مگر اب بڑی حد تک ان کا علاج ممکن ہو سکا ہے اور اس موضوع پر بحث بھی کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ ریحام خان نے یہ بھی لکھا ہے کہ شوکت خانم کینسر اسپتال فنڈ کے لئے بھرپور مہم چلانے والے دلدار پرویز بھٹی کے جنازے میں بھی خان صاحب بغیر کسی وجہ کے شرکت نہ سکے۔ کتاب کے اسی صفحے پر ریحام لکھتی ہیں کہ کالاباغ میں عمران خان کسی کے یہاں مہمان تھے مگر رات کو اسی میزبان کا انتقال ہو گیا تو عمران خان بغیر جنازے میں شرکت کیے نکل آئے۔

جب ملک کے حکمران اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھ جاتے ہیں تو اس دیس کو تباہی سے کوئی بھی نہیں بچا سکتا۔ اس بے حسی اور سنگ دلی کا عملی مظاہرہ عمران خان نے مظلوموں اور ہزارہ کے مقتولوں کے ساتھ کیا۔ کسی کے جنازے یا کڑے وقت میں ساتھ دینے سے کوئی زندہ نہیں ہو جاتا یا زخم بھر نہیں جاتے مگر ہمارے مشرقی معاشرے میں ایک دوسرے کے دکھ درد کو بانٹنا اصل میں ہمارے اقدار کا حصہ ہے اور اسی رشتے کا نام پاکستان ہے۔ ورنہ پاکستان تو کسی قوم کا نام نہیں ہے۔

مصنف پشاور سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ان سے رابطہ ٹوئٹر پر @theraufkhan کیا جا سکتا ہے۔