پورے ادارے کی ساکھ تباہ کر کے جج مستعفی ہو جائے اور ہم کوئی کارروائی نہ کریں: چیف جسٹس 

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جج کا استعفیٰ آخری مرحلے پر دوسرے شوکاز نوٹس کے بعد آیا جس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔ یا تو جج کے خلاف شکایت جھوٹی تھی اور جج نے پریشر میں آکر استعفیٰ دیا۔ دوسری صورت میں جج کے خلاف الزامات درست تھے اور جج اسکا سامنا نہیں کرنا چاہتے تھے۔

پورے ادارے کی ساکھ تباہ کر کے جج مستعفی ہو جائے اور ہم کوئی کارروائی نہ کریں: چیف جسٹس 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم جوڈیشل کونسل اجلاس کے دوران ریمارکس دیے کہ یہ نہیں ہو سکتا کوئی جج پورے ادارے کی ساکھ تباہ کر کے استعفی دے جائے اور ہم کوئی کارروائی نہ کریں۔ پورا پاکستان ہماری طرف دیکھ رہا ہے۔ کوئی تو فائنڈنگ دینی ہے، شکایات  درست تھیں یا نہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  کی زیرصدارت سید مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف مس کنڈکٹ ریفرنس کی سماعت کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ہوا۔ سپریم کورٹ کی سینئر ترین جج جسٹس اعجازالاحسن نے بطور سپریم جوڈیشل کونسل ممبر  اجلاس میں  بیٹھنے سے انکار کر دیا۔

جسٹس سردار طارق مسعود ، چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بطور رکن اجلاس میں شریک ہوئے تاہم ممبر جسٹس اعجاز الاحسن شریک نہیں ہوئے۔

جسٹس مظاہر علی اکبر کا کوئی وکیل بھی اجلاس کے سامنے پیش نہ ہوا۔ چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل کو مظاہر علی نقوی کا استعفی پڑھنے کی ہدایت کی۔

چیف جسٹس نے کونسل کی کارروائی میں مختصر وقفہ کرتے ہوئے کہا کہ کونسل کے ایک ممبر جسٹس اعجاز الاحسن اجلاس میں شریک نہیں۔ ان کے بعد سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ ہیں۔ ہم جسٹس منصور سے ان کی دستیابی کا پوچھ لیتے ہیں۔اگر وہ دستیاب ہوئے تو کونسل کی کارروائی کو آگے بڑھایا جائے گا۔

وقفے کے بعد چیئرمین جوڈیشل کونسل کی سربراہی میں اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو جسٹس منصور علی شاہ بطور ممبر کونسل اجلاس میں شریک ہوگئے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب معاونت کریں کیا معاملہ ختم ہوگیا۔ یہ استعفی کونسل کارروائی کے آغاز میں نہیں بلکہ کونسل کی جانب سے شوکاز جاری کرنے کے بعد استعفی دیا گیا۔ جس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں ، یا تو جج کے خلاف شکایت جھوٹی تھی اور جج نے پریشر میں آکر استعفیٰ دیا۔ دوسری صورت میں جج کے خلاف الزامات درست تھے۔ جج اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ممکن ہے درخواستیں غلط ہوں اور جج نے دباو پر استعفیٰ دیا ہو۔ جج کی جانب سے دباؤ پر استعفی دینے سے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔

چیئرمین کونسل قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یقینی طور پر جج کو عہدے سے ہٹانے کی کارروائی تو ختم ہو گئی۔ استعفی دینا جج کا ذاتی فیصلہ ہے۔  ہمارے سامنے غیر معمولی صورتحال ہے۔ جج کی برطرفی کا سوال اب غیر متعلقہ ہوچکا ہے۔ ابھی تک کونسل نے صدر مملکت کو صرف رپورٹ بھیجی تھی۔ اگر الزامات ثابت ہوجاتے تو کونسل صدر مملکت کو جج کی برطرفی کیلئے لکھتی۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار  کیا کہ اس صورتحال پر آپ کی کیا رائے ہے؟ 

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عوامی اعتماد کا شفافیت سے براہ راست تعلق ہے۔ کونسل کے سامنے سوال یہ ہے کہ جج کے استعفے کا کارروائی پر اثر کیا ہو گا۔ جج کو ہٹانے کا طریقہ کار رولز آف پروسجر 2005 میں درج ہیں۔سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے جون 2023 میں فیصلہ دیا کہ جج ریٹائر ہو جائے تو اس کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی۔ کیس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف شکایتی معلومات سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجی گئیں۔ کونسل میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے شکایت پر کارروائی نہیں کی۔ 

اٹارنی جنرل  نے کہا کہ ثاقب نثار کے خلاف کارروائی نا ہونے پر آئینی درخواست 2020 میں دائر ہوئی اور فیصلہ 2023 میں ہوا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ثاقب نثار کے معاملے میں تو کارروائی شروع نہیں ہوئی تھی جبکہ اب ہو چکی۔ 

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا معاملہ ہے جس کا سامنا سپریم جوڈیشل کونسل کر رہی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل رائے نہیں دے سکتی۔ اگر کونسل میں سے جج کا کوئی دوست کارروائی کے آخر دن بتا دیتا کہ برطرف کرنے لگے اور وہ استعفی دے جائے تو کیا ہو گا؟ اٹارنی جنرل کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ 

اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ کارروائی کے دوران جج کا استعفی دے جانا اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے۔ جو فیصلہ جون 2023 میں آیا وہ دو رکنی بنچ کا تھا جبکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آنے کے بعد آئینی معاملات پر یہ بنچ نہیں دے سکتا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی جج سپریم کورٹ کی ساکھ تباہ کر کے استعفی دےجائے تو کیا اس سے خطرہ ہمیں نہیں ہو گا؟ ہم کوئی کارروائی نہ کریں۔ اپنی تباہ ساکھ کی سرجری کیسے کریں گے؟ پورا پاکستان ہماری طرف دیکھ رہا ہے۔ کوئی تو فائنڈنگ دینی ہے۔ شکایات جینوئن تھیں یا نہیں۔

  چیف جسٹس کے کہاکہ کیا آئین کی دستاویز صرف ججز یا بیوروکریسی کے لیے ہے؟ آئین پاکستان عوام کے لیے ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے نوٹس پر تفصیلی جواب بھی جمع کروایا تھا جس میں انہوں نے خود پر عائد الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل جج کے خلاف معلومات لے سکتی ہے لیکن کونسل جج کے خلاف کسی کی شکایت پرکارروائی نہیں کرسکتی۔
تفصیلی جواب میں کہا گیا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری احکامات رولزکی توہین کے مترادف ہیں۔ رولز کے مطابق کونسل کو معلومات دینے والے کا کارروائی میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔
بعد ازاں مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔جسٹس مظاہر نقوی نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو بھجوا دیا  تھا جو  آج منظور کر لیا گیا۔ 

صدر مملکت نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر جسٹس مظاہر نقوی کا استعفیٰ آئین کے آرٹیکل 179 کے تحت منظور کیا۔