"عملے کی کمی کے باعث ناتجربہ کار ڈرائیورز بھی ٹرینیں چلاتے ہیں"

وفاقی وزیر ریلوے کے وزیر بننے سے لیکر ابتک اناسی حادثات پیش آ چکے ہیں، ماہرین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اس کی وجہ سینئر افراد کا عہدوں پر نا ہوناہے جبکہ کئی جگہ من پسند افراد کو بھرتی کیا گیا ہے، یعنی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے یہ حادثات ہو رہے ہیں۔

یاد رہے کہ لاہور سے کوئٹہ جانے والی اکبر بگٹی ایکسپریس رحیم یار خان کے قریب ولہار اسٹیشن کی حدود میں کھڑی مال گاڑی سے ٹکرا گئی، حادثے کے نتیجے میں مسافر ٹرین کا انجن مکمل طور پر تباہ ہوگیا اور 3 سے 4 بوگیاں پٹری سے اتر گئیں جب کہ 6 سے 7 بوگیاں شدید متاثر ہوئیں۔

اگست 2018ء سے جولائی 2019ء تک ٹرینوں کے 79 چھوٹے بڑے حادثے ہوچکے ہیں جس میں انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ محکمہ کو کروڑوں روپے کا نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حادثات کی سب سے بڑی وجہ ناتجربہ کار جنرل مینیجر ریلوے آپریشن آفتاب اکبر کی اہم پوسٹ پر تعیناتی ہے۔ انہوں نے غلط حکمت عملی کی وجہ سے دیگر اہم پوسٹوں پر بھی جونیئر اور ناتجربہ کار افسروں کو لگایا ہوا ہے جبکہ سینئر افسران کئی ماہ سے تقرری کے منتظر ہیں۔ سب سے زیادہ جون میں 20 حادثے ہوئے۔

دوسری جانب فیڈرل گورنمنٹ ریلوے انسپکٹر کی انسپکشن رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ریلوے حادثات کی بڑی وجہ کمزور اعصاب کے مالک ٹرین ڈرائیور ہیں۔ رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے کہ ڈرائیورز کی بھرتی معیار کے مطابق نہیں ہوتی، نفسیاتی اور جسمانی معیار کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا، عملے کی کمی کے باعث ناتجربہ کار ڈرائیورز بھی ٹرینیں چلاتے ہیں۔

فیڈرل گورنمنٹ انسپکٹر آف ریلوے نے ملک میں ٹرین حادثات کی رپورٹ جاری کردی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ریلوے حکام انکوائریز رپورٹ پرعمل درآمد نہیں کرتے، پرانے پھاٹک کاغذوں میں بند مگر حقیقت میں زیراستعمال ہیں، کئی پھاٹک ختم ہونے کے باوجود استعمال ہورہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ڈرائیورز اور ٹیکنیکل اسٹاف کی تعیناتی کے دوران جسمانی اور نفسیاتی معائنے کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔

اس کے علاوہ عملے کی کمی کے باعث سینکڑوں لوگوں کی جانوں سمیت ٹرینیں ناتجربہ کار ڈرائیورز اور