’’آیا صوفیہ کو میوزیم سے مسجد میں بحال کرنے کا مدعا مذہبی سے زیادہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہے‘‘

’’آیا صوفیہ کو میوزیم سے مسجد میں بحال کرنے کا مدعا مذہبی سے زیادہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہے‘‘
ترک صدر رجب طیب اردوان نے تاریخی اہمیت کی حامل اور یونیسکو کے عالمی ورثے کی فہرست میں شامل میوزیم آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کے صدارتی حکم نامے پر دستخط کر دیے ہیں اور 24 جولائی سے نماز کی ادائیگی کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق ترکی کی اعلیٰ عدالت کونسل آف سٹیٹ کی جانب سے آیا صوفیہ کو میوزیم سے مسجد میں تبدیل کرنے کے حق میں فیصلہ آتے ہی ترک صدر نے میوزیم کو مسجد میں تبدیل کرنے کے لیے صدارتی فرمان پر دستخط کر دیے۔ صدارتی حکم پر دستخط کے بعد صدر طیب اردوان نے اعلان کیا کہ 24 جولائی کو میوزیم میں نماز کی ادائیگی شروع ہو جائے گی جبکہ میوزیم کا کنٹرول محکمہ مذہبی امور نے سنبھال لیا ہے۔

ترکی میں قدامت پسند مسلمان کئی برسوں سے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ اس عمارت کو ایک مسجد بنایا جائے۔ تاہم حزبِ مخالف میں موجود سیکیولر سیاسی قوتیں اس اقدام کی مخالفت کرتی آئی ہیں۔  آیا صوفیہ کو میوزیم سے مسجد میں تبدیل کرنے کے فیصلے کو عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اس حوالے سے پاکستان کے معروف صحافی و کالم نگار وسعت اللہ خان نے بھی ایکسپریس نیوز میں 11 جولائی کو لکھے گئے اپنے کالم بعنوان ’’آیا صوفیہ ، ارطغرل ، مسجدِ قرطبہ‘‘ میں اس فیصلے کے محرکات بیان کیے ہیں۔

وسعت اللہ خان نے اپنے کالم کے آغاز میں آیا صوفیہ کی تاریخی حیثیت کو بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ آیا صوفیہ ڈیڑھ ہزار برس پرانی عمارت ہے اور 537 عیسوی میں مشرقی سلطنتِ روم کے شہنشاہ جسٹینین نے دارالحکومت قسطنطنیہ کے شایانِ شان بطور گرجا تعمیر کروائی۔ 900 برس بعد عثمانی سلطان محمد دوم نے 1453 میں قسطنطنیہ فتح کیا تو دنیا کے سب سے بڑے گرجا گھر کی چھتوں اور گیلریوں میں کی گئی مذہبی مصوری کو ڈھانک دیا اور اس عمارت میں نمازِ جمعہ کی امامت کی۔

وسعت اللہ خان نے اپنے کالم میں آیا صوفیہ کی تاریخ کو بیان کرتے ہوئے مزید لکھا کہ معروف ترک ماہرِ تعمیرات سنان نے آیا صوفیہ پر اسلامی رنگ چڑھانے کے لیے عمارت میں میناروں کا اضافہ کروایا اور اسے باقاعدہ مسجد میں بدل دیا۔ اگلے 500 برس تک یہاں نماز جاری رہی۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد جب نوجوان ترک قوم پرستوں نے کمال اتاترک کی قیادت میں لاغر سلطنتِ عثمانیہ کا بوریا لپیٹ کر سیکولر طرزِ حکومت اپنایا تو آیا صوفیہ کو مسجد سے میوزیم میں بدل دیا گیا۔ عمارت کے گنبد، دیواروں اور راہداریوں میں مذہبی مصوری کے جو شاہکار پلاسٹر تلے چھپا دیے گئے تھے انھیں بحال کیا گیا۔ پھر اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو نے آیا صوفیہ کو مشترکہ عالمی میراث میں شامل کر لیا۔

اب چھٹی صدی عیسوی میں بنائی گئی اس تاریخی عمارت کو ایک بار پھر مسجد میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ آیا صوفیہ جو چھٹی صدی میں ایک چرچ تھا، 1453 میں مسجد میں تبدیل ہوا، 1934 میں مسجد سے میوزیم اور 2020 میں میوزیم سے پھر مسجد میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے کیا مقاصد ہیں؟

اس حوالے سے وسعت اللہ خان نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ ترک صدر رجب طیب اردوان نے گذشتہ برس ( آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کے لیے) عدالت سے تب رجوع کیا جب ان کی جماعت کو استنبول کے بلدیاتی انتخابات میں تین عشروں میں پہلی بار شکست ہوئی۔ مگر اردوان جن کا اپنا تعلق بھی استنبول سے ہے اس شہر پر اپنی سیاسی چھاپ کمزور ہوتے نہیں دیکھ پائے۔

انھیں بلدیاتی انتخابات میں شکست دینے والے مخالفین کا کہنا ہے کہ طیب اردوان کی جانب سے آیا صوفیہ کو میوزیم سے مسجد میں بحال کرنے کا مدعا مذہبی سے زیادہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہے کیونکہ جب اردوان صاحب پورے ایک عشرے تک استنبول کے مئیر رہے تب انھیں آیا صوفیہ کو میوزیم سے مسجد میں بدلنے کا خیال نہیں آیا۔ پچھلے بیس برس سے ان کی جماعت ترکی پر بلا وقفہ مسلسل حکمرانی کر رہی ہے۔ اس دوران بھی وہ چاہتے تو یہ کام کر سکتے تھے مگر اس جانب ان کا دھیان تب ہی گیا جب گذشتہ برس استنبول سیاسی طور پر ہاتھ سے نکل گیا۔

وسعت اللہ خان نے مزید لکھا کہ موجودہ ترک حکومت عثمانی عظمتِ رفتہ کو پھر سے دھو مانجھ کر چمکانے کے لیے ثقافتی سطح پر بھی فعال ہے۔ اس کی گواہی تو وزیرِ اعظم سمیت ہر دوسرا پاکستانی ناظر بھی دے گا جو ان دنوں ارطغرل کو مسلم عظمتِ رفتہ کا تازہ استعارہ سمجھ کر نہایت عقیدت سے دیکھ رہا ہے۔