استنبول میں رجب طیب اردوان کی جماعت کو دو مرتبہ شکست دینے والے اِکرم امام اولُو کون ہیں؟

استنبول میں رجب طیب اردوان کی جماعت کو دو مرتبہ شکست دینے والے اِکرم امام اولُو کون ہیں؟

استنبول میں بلدیہ عظمیٰ کے انتخابات میں اکرم امام اولو کی جیت کو پورے ترکی کے لیے ایک ’نیا آغاز‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ ترک صدر نے اپنی جماعت کی شکست کو کھلے دل سے تسلیم کیا۔ استنبول کی سڑکوں پر جشن کا سماں ہے۔


مارچ میں ہونے والے انتخابات کی نسبت اس مرتبہ امام اولو نے واضح برتری حاصل کی ہے۔ پہلے انتخابات کے نتائج کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔ نتائج کے مطابق اس مرتبہ سیکولر جماعت سی ایچ پی کے امام اولو کو چون فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں جبکہ بن یلدرم کو پینتالیس فیصد ووٹ ملے ہیں۔

انچاس سالہ امام اولو کا اپنے ہزاروں حامیوں کے سامنے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ پورے ملک کے لیے ایک نیا آغاز ہے، ''یہ انتخابات کسی ایک جماعت نے نہیں جیتے بلکہ یہ پورے استنبول اور پورے ترکی کی فتح ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''آج استنبول کے سولہ ملین شہریوں نے جمہوریت پر ہمارا یقین پختہ کر دیا ہے اور انصاف پر ہمارا اعتماد بحال ہو گیا ہے۔‘‘

استنبول کے نئے میئر کون ہیں؟


اِکرم امام اولو 1970 میں ترکی کے علاقے ترابزون میں پیدا ہوئے۔ استنبول کے 49 برس کے نو منتخب میئر امام اولو کا تعلق سیکولر ری پبلکن پیپلز پارٹی سے ہے۔

انتخابات سے قبل ان کے نام سے کم لوگ ہی واقف تھے۔ امام اولو نے بزنس مینجمنٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد استنبول میں اپنے خاندانی ریسٹورنٹس اور ریئل سٹیٹ کے کاروبار سے جڑ گئے۔ نرم گفتار والے امام اولو کی جیت کے بعد سوشل میڈیا پر بھی ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور ٹوئٹر پر ان کے فالورز کی تعداد 350,000 سے بڑھ کر 2.75 ملین تک پہنچ چکی ہے۔

اردوان کی طرح انھیں بھی فٹ بال کا شوق ہے اور وہ اپنے آبائی علاقے ترابزون کی فٹ بال ٹیم کے بورڈ کے ممبر بھی ہیں۔

اس سے قبل امام اولو استنبول کے کم شہرت والے ضلع 'بیلک دزو‘ کے میئر بھی رہ چکے ہیں جہاں سے انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اگرچہ وہ میڈیا پر زیادہ مشہور نہیں تھے۔

انھوں نے مارچ میں ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اردوان کی حکمران جماعت استنبول کے بڑے وسائل چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔

اے ایف پی کے مطابق انھوں نے مئی میں یہ کہہ دیا تھا کہ وہ جمہوریت کی خاطر ہر صورت (اردوان) کا مقابلہ کریں گے اور یہ یقیناً انقلاب ہوگا جب ہم (اس مقابلے کو) اس کے اختتام تک لے جائیں گے۔'

روایتی سیاست کے برعکس انھوں نے انتخابی مہم کے دوران مخالفین پر ذاتی حملے نہیں کیے۔ انھوں نے اپنی انتخابی مہم بہت مثبت انداز میں آگے بڑھائی۔ وہ گلی گلی گئے لوگوں سے ملے اور سوشل میڈیا پر ووٹروں کے ساتھ ان کی کیفے اور ہوٹلوں میں لی گئی سیلفیوں کا خوب چرچا رہا۔

سوشل میڈیا پر امام اولو کی مہم چلانے والے زلان کارکرت کے مطابق ’استنبول کے نو منتخب میئر عوام میں گھل مل جاتے ہیں جو کہ ہر امیدوار نہیں کرسکتا۔‘

اس کے علاوہ ان کے 'سب اچھا ہو جائے گا' جیسے انتخابی نعرے بھی بہت متاثر کر دینے والے تھے۔ انہیں یہ نعرہ ایک 13 برس کے لڑکے بیرکے نے دیا جو اس مہم کا حصہ تھا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ان انتخابات میں ترک معاشی بحران نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ ترک کرنسی کی قدر میں کمی اور افراط زر میں اضافے کی وجہ سے اے کے پی کے روایتی ووٹروں میں بھی بے چینی پائی جاتی تھی۔ امام اولو نے اپنی انتخابی مہم میں غربت، بے روزگاری اور بچوں کی بہتر نگہداشت جیسے امور کو موضوع بنایا تھا۔ انہوں نے شہری انتظامیہ کے خلاف 'جنگ کا اعلان‘ کر رکھا تھا۔