ایسا لگتا ہے کہ شاہراہ دستور پر سفید چادر اوڑھے سپریم کورٹ کی عمارت اپنی قدر و منزلت کھو رہی ہے۔ انصاف کے ترازو میں جھکاؤ نمایاں ہے ۔ عدل کی دیوی آنکھوں پر پٹی باندھے ساکن کھڑی ہے ، شاید ججز صاحبان کی نظر بھی دھندلا سی گئی ہے۔ نظریہ ضرورت کو ترک کرنے والا اور اصولوں پر ڈٹ جانے والا قاضی آج اپنی ہی عدالت میں ملزم بنا کھڑا ہے، قاضی صاحب کے لئے آئین کی بالادستی ، خود مختار عدلیہ اور آزاد میڈیا کی بات کرنا جرم بن گیا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ماضی میں کئی اہم فیصلے کئے ۔ ماضی کی برسراقتدار جماعتیں پیپلزپارٹی ہو یا مسلم لیگ ن ، ایم کیو ایم ہو یا کوئی اور ۔ قاضی فائز عیسیٰ سے سب ہی نالاں نظر آئے، ایک فریق نے اُنکے فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تو دوسرا سخت ریمارکس پر معترض نظر آیا۔ ماضی میں حکومتوں کو ناراض کرنے کے باوجود نہ کبھی ان پر جانبداری کا الزام لگایا گیا نہ ہی انکے خلاف محلاتی سازشیں رچی گئیں۔مگر نومبر 2017 میں فیض دھرنا کیس کے فیصلے نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا، اس فیصلے میں ملکی حساس اداروں کے کردار پر کھل کر بات ہوئی۔ضرورت سے زیادہ ہمارے حساس اداروں کو یہ بات شاید آج تک ہضم نہ ہو پائی کہ انکے خلاف بھی کوئی کھل کر بات کر سکتا ہے۔ پھر بھلے وہ کوئی سپریم کورٹ کا معزز جج ہو یا کوئی سر پھیرا سیاستدان۔ جب اداروں کی حساسیت کو ٹھیس پہنچتی ہے تو اس کے اثرات بھی نظر آتے ہیں۔ فیصلہ ہوتا فائز عیسیٰ کو انکی اوقات یاد دلانے کا۔ سرکاری ادارے چپکے سے جج صاحب اور ان کے اہلخانہ کے اثاثہ جات کی چھان بین شروع کرتے ہیں ،ہمیشہ کی طرح ان کی حب الوطنی پر بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ بظاہر ایک نامعلوم صحافی کے ذریعے درخواست دائر کرائی جاتی ہے۔ یہاں سے انٹری ہوتی ہے حکام بالا کے دستِ راست بیرسٹر شہزاد اکبر کی۔ جو ملک کے وسیع تر مفاد میں دورِ حاضر کے شریف الدین پیرزادہ یعنی بیرسٹر فروغ نسیم کی مدد سے معزز جج کیخلاف ایک ریفرنس تیار کرتے ہیں۔صدارتی ریفرنس کی آڑ میں معزز جج کا میڈیا ٹرائل شروع ہوتا ہے، ان کے اہلخانہ پر بھی پاکستان اور بیرون ملک نظر رکھی جاتی ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ کا اپنا ہی ادارہ اُن سے آنکھیں پھیر لیتا ہے۔ صحافیوں کیساتھ ایک ملاقات میں سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اعتراف کر چکے ہیں کہ معزز جج کو خبردار کیا تھا کہ انکے خلاف ریفرنس آ سکتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر حکومت اپنی ذاتی پسند نا پسند یا کسی کے دباو پر ایک جج کو ہٹانے کیلئے ریفرنس بھیج سکتی ہے تو بطور چیف جسٹس آف پاکستان موصوف نے چُپ رہنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ ان حالات میں اعلیٰ عدلیہ کا رویہ بھی اپنے ہی معزز جج کے ساتھ بدل گیا۔ رجسٹرار آفس نے انکی عدالت میں اہم نوعیت کے مقدمات مقرر کرنا بند کر دیے۔ جج صاحب نے موجودہ حکومت کی مبینہ غفلتوں کا نوٹس لیا تو حکومتی حلقے مزید ناراض ہوگئے مگر چیف جسٹس کو بھی یہ بات ناگوار گزری، نتیجتاً غیر معمولی طور پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو وزیراعظم کیخلاف مقدمات کی سماعت سے روک دیا جاتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بلاشبہ ایک بہترین جج ہیں تاہم ضرورت سے زیادہ حساس ہونے کے باعث بعض اوقات جذبات پر قابو نہ پانا ان کی ایک بہت بڑی کمزوری سمجھی جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے قریب ترین لوگوں کو بھی خود سے دور کرنے میں دیر نہیں کرتے۔ اکثر اوقات کمرہ عدالت میں اینگری ینگ مین کے روپ میں بھی نظر آتے ہیں ۔ کبھی تیاری نہ ہونے پر وکلاء کی سرزنش کر دیتے ہیں تو کبھی ماسک نہ پہننے پر صحافیوں کو ڈانٹ پلا دیتے ہیں ۔ کچھ سال پہلے ایک ڈنر پر جب ان سے ملاقات ہوئی تو جج صاحب کو ایک وکیل کا قصہ سنایا، جو انکی عدالت سے باہر نکلتے وقت خود کو کوس رہے تھے، پوچھنے پر کہنے لگے " آئندہ بغیر تیاری جج صاحب کے سامنے پیش نہیں ہوں گا، ذرا بھی لحاظ نہیں کرتے"۔ ڈرتے ہوئے جب میں نے جج صاحب سے کہا کہ آپکے بارے میں تاثر عام ہے کہ آپ بہت جلد غصے میں آ جاتے ہیں، ایک لمحے کے توقف کے بعد کہنے لگے " اسے میری کمزوری سمجھ لیں، یقین جانیے اس پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہوں مگر جب بغیر تیاری کے کوئی وکیل عدالتی وقت ضائع کرے تو چپ نہیں رہا جاتا". حال ہی میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران جناب نے میڈیا پر قدغن کو جواز بنا کر کھلی عدالت میں موجود رپورٹرز سے آزادیِ صحافت پر ریفرنڈم بھی کروا لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ صحافیوں نے قاضی فائز عیسیٰ کی اس دلیل کہ "پاکستان میں میڈیا آزاد نہیں ہے" کو کھلی عدالت میں ہاتھ اٹھا کر درست ثابت کر دیا۔
یہاں سوال کسی ایک جج کی اہلیت اور جانبداری کا نہیں ہے بلکہ نکتہ اعتراض وہ غیر معمولی سوچ اور نظریہ ہے جو سوال کرنے پر اکساتا ہے۔ جذبہ حب الوطنی سے سرشار ادارے اگر سمجھتے ہیں کہ اختلاف رائے رکھنے والے ججز ریاستِ پاکستان کیلیے خطرہ ہیں، اور انکو یہ حق حاصل ہے کہ ایسے ججز کو نہ صرف سسٹم سے نکال باہر کریں گے بلکہ جدید ٹیکنالوجی کو استعمال میں لاتے ہوئے ثاقب نثار ، افتخار چوہدری اور آصف سعید کھوسہ جیسے روبوٹس (مشینی آدمی) تیار کروائیں گے جو سو فیصد ہدایات پر عمل درآمد یقینی بنائیں گے۔ شاہد وہ سمجھتے ہیں کہ قاضی صاحب سے سبق حاصل کر کے آئندہ کوئی بھی جج سوال اٹھانے کی جسارت نہیں کریگا۔ تو یہ ان کی بھول ہو گی، شاید ہر دور میں کوئی قاضی پیدا ہوگا جو کہے گا
میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
احمد عدیل سرفراز ایک صحافی ہیں جو آج نیوز کے ساتھ بطور سپریم کورٹ رپورٹر اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔