جب ملک معراج خالد کو نگران وزیراعظم پاکستان بنایا گیا تو انہوں نے اپنی کابینہ کے وزرا کو امور مملکت چلانے کے لیے علی ابن ابی طالب کا تحریر کردہ وہ خط ارسال کیا جو انہوں نے مصر میں اپنے گورنر مالک ابن اشتر کو لکھا تھا۔ اس وقت پہلی مرتبہ یہ خط تفصیل سے پڑھا۔ اس خط میں سے چند ضروری احکامات آپ کی نظر۔
مخلوقات خدا کی دو قسمیں ہیں بعض تمہارے دینی بھائی ہیں اور بعض خلقت میں تمہارے جیسے بشیر ہیں جن سے لغزشیں بھی ہوجاتی ہیں اور انہیں خطاؤں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور جان بوجھ کر یا دھوکے سے ان سے غلطیاں بھی ہوجاتی ہیں۔ لہذا انہیں ویسے ہی معاف کردینا جس طرح تم چاہتے ہو کہ پروردگار تمہاری غلطیوں سے درگزر کرے کہ تم ان سے بالاتر ہو۔ تمھاری ذمہ داری صرف عیوب کی اصلاح کر دینا ہے اور غائبات کا فیصلہ کرنے والا پروردگار ہے۔ جہاں تک ممکن ہو لوگوں کے ان تمام عیوب کی پردہ پوشی کرتے رہو جس طرح اپنے عیوب کی پردہ پوشی کی پروردگار سے تمنا کرتے ہو۔ اور جب لوگوں کے ساتھ جماعت کی نماز ادا کرو تو نہ اس طرح پڑھو کہ لوگ بیزار ہو جائیں اور نہ اس طرح کہ نماز برباد ہو جائے اس لئے کہ لوگوں میں بیمار اور ضرورت مند افراد بھی ہوتے ہیں اور میں نے یمن کی مہم پر جاتے ہوئے حضور اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ نماز جماعت کا انداز کیا ہونا چاہئے تو آپ نے فرمایا تھا کہ کمزور ترین آدمی کے اعتبار سے نماز ادا کرنا اور مومنین کے حال پر مہربان رہنا۔
دیکھو اپنے مشورہ میں کسی بخیل کو شامل نہ کرنا کہ وہ تم کو فضل و کرم کے راستہ سے ہٹا دے گا اور فقر و فاقہ کا خوف دلاتا رہے گا اور اسی طرح بزدل سے مشورہ نہ کرنا کہ وہ ہر معاملہ میں کمزور بنا دے گا۔ اور حریص سے بھی مشورہ نہ کرنا کہ وہ ظالمانہ طریقے سے مال جمع کرنے کو بھی تمہاری نگاہوں میں آراستہ کر دے گا۔
علما کے ساتھ علمی مباحثہ اور حکما کےساتھ سنجیدہ بحث جاری رکھنا، ان مسائل کے بارے میں جن سے علاقہ کے امور کی اصلاح ہوتی ہو اور وہ امور قائم رہتے ہیں جن سے گذشتہ افراد کے حالات کی اصلاح ہوئی ہے، اور یاد رکھو کہ رعایا کے بہت سے طبقات ہوتے میں جن میں کسی کی اصلاح دوسرے کے بغیر نہیں ہوسکتی ہے اور کوئی دوسرے سے متغنی نہیں ہو سکتا ہے۔ اور خبر دار رعایا پر احسان نہ جتانا اور جو سلوک کیا ہے اسے زیادہ سمجھنے کی کوشش بھی نہ کرنا یا ان سے کوئی وعدہ کر کے اس کے بعد وعدہ خلافی بھی نہ کرنا کہ یہ طرز عمل احسان کو برباد کر دیتا ہے اور زیادتی عمل کا غرور حق کی نورانیت کو فنا کر دیتا ہے۔
رسول خدا ﷺ کا فرمان ہے کہ میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ۔ میں اکثر سوچتا ہوں رسول خدا ﷺ کو ہم نے صرف احادیث تک اور علی کو شیر خدا، فاتح خیبر اور کچھ اقوال تک محدود کر دیا ہے۔
رمضان المبارک کا مہینہ ہے ایک طویل بحث رہی نماز تراویح کے حوالے سے، ایک طبقہ بضد رہا کہ بیشک تراویح نفل عبادت ہے لیکن مساجد میں بندوبست ہونا چاہیے تھا۔ چند دنوں میں یوم علی ہے، مجالس شہادت اور جلوس کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ مسلمانوں کو اسلام کے مکمل اور آخری دین ہونے پر فخر ہے، ہونا بھی چاہیے، لیکن کیا فخر ہی کافی ہے، عمل نہیں۔
علم تو انسانیت کی فلاح کیلیے ہے۔ کیا موجودہ حالات میں جلوس شہادت علی برآمد کر کے انسانیت یا اسلام کی کوئی خدمت ہوگی۔ جو علی (علیہ السلام) نماز جماعت کو مختصر پڑھانے کا حکم دے، وہ علی (علیہ السلام) اپنے ماننے والوں کی جانوں کو خطرہ میں ڈالنے پر آپ سے خوش ہو گا؟
مجھے آج ڈاکٹر علی شریعتی کے الفاظ یاد آ رہے ہیں: صفوی حکمرانی کے آنے کے بعد شیعہ اسلام جو ظلم کے خلاف مظلوم کی آواز تھا، عام مساجد سے نکل کر شاہی مساجد میں قید ہو گیا۔ کربلا کی سرخ تحریک نے سیاہ لباس پہن لیا۔ مذہب شہادت مذہب سوگ میں تبدیل ہو گیا، علی کے نبی اور نبی کے علی کو ماننا ہے یا ان کی ماننی ہے؟ فیصلہ آپ کا۔