Get Alerts

پاک فوج عمران خان کی کون سی خواہشات پوری نہ کر سکی؟ انصار عباسی نے اندرونی کہانی سنا دی

پاک فوج عمران خان کی کون سی خواہشات پوری نہ کر سکی؟ انصار عباسی نے اندرونی کہانی سنا دی
سینئر صحافی انصار عباسی نے کہا ہے کہ عمران خان جس وقت وزیراعظم کے عہدے پر تھے اور ان کیخلاف پی ڈی ایم کی تحریک عدم اعتماد پیش ہو چکی تھی تو اس وقت ان کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کیساتھ ایک انتہائی اہم ملاقات ہوئی جس میں آئی ایس آئی چیف بھی موجود تھے۔

اپنے وی لاگ میں ان کا کہنا تھا کہ اس میٹنگ میں عمران خان نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے کہا کہ وہ ان کے تمام اتحادیوں سے رابطہ کرکے انھیں پابند کریں کہ وہ حکومت کا ساتھ نہ چھوڑیں لیکن چونکہ عسکری قیادت یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ وہ نیوٹرل رہے گی، اس لئے عمران خان پر واضح کر دیا گیا تھا کہ ہم ایسا کام کسی صورت نہیں کر سکتے۔ جب عسکری حکام نے بات نہ مانی تو عمران خان بہت اپ سیٹ ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ پرویز خٹک نے آرمی چیف کو ٹیلی فون کال کرکے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ عمران خان سے ملاقات کریں۔ اسی درخواست کی روشنی میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے آئی ایس آئی چیف کے ہمراہ بنی گالا میں اہم ملاقات کی، اسی وقت ان مشہور زمانہ تین آپشنز کا ذکر ہوا۔

انصار عباسی نے بتایا کہ اس ملاقات میں عمران خان نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے کہا کہ اگر اپوزیشن ان کیخلاف تحریک عدم اعتماد واپس لے لیتی ہے تو وہ اس کے بعد اسمبلی کو تحلیل کر دیں گے۔ تاہم استعفے کی بات ماننے سے انہوں نے انکار کر دیا تھا۔


انہوں نے کہا کہ اس ملاقات کے بعد عسکری قیادت پی ڈی ایم کی قیادت کیساتھ میٹنگ کیلئے پہنچی۔ اس میں آصف علی زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان شامل تھے۔ آرمی چیف نے عمران خان کے آپشنز ان کے سامنے رکھے اور کہا کہ ہم سیاسی طور پر کسی قسم کی مداخلت نہیں چاہتے۔ اس پر پی ڈی ایم کی قیادت نے اس کو ماننے سے یکسر انکار کر دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ جو انتہائی اہم چیز جس نے عمران خان کو ذہنی طور بہت اپ سیٹ کیا وہ غیر ملکی مراسلے والی بات تھی۔ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ میں یہ بات طے کی جا چکی تھی کہ مراسلے میں دھمکی آمیز زبان استعمال کی گئی تھی۔ امریکا کی جانب سے ایسا کرنا مداخلت ہے۔ تاہم عمران خان نے اسے سازش قرار دیا لیکن ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اس کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ عمران خان کو باور کرا دیا گیا تھا کہ اس قسم کا ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے کہ آپ کی حکومت کو گرانے کیلئے امریکا نے کوئی سازش رچائی ہے۔ تاہم اس بات کو تسلیم کیا گیا ایسے مراسلے ڈپلومیٹک تعلقات میں آ جاتے ہیں۔ اور اس کا اسی طریقے سے ردعمل بھی دیا جاتا ہے۔