صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں سریاب روڈ پر جامعہ بلوچستان کے گیٹ پر چند طالب علم دھرنا دیے ہوئے بیٹھے ہیں جن کا مطالبہ ہے کہ یکم نومبر کو جو دو طلبہ ہوسٹل سے لاپتہ ہوئے ہیں انہیں بازیاب کیا جائے۔
دھرنے میں بیٹھے بلوچستان سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات بالاچ قادرکے مطابق ’سہیل اور فصیح بلوچ یکم نومبر کو ہوسٹل جانے کے بعد لاپتہ ہوئے ہیں جن کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔‘
بالاچ نے بتایا کہ ’ہم نے اس واقعے کے خلاف کل سے یونیورسٹی کے گیٹ پر دھرنا دیا ہوا ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ ان دونوں طالب علموں کو بازیاب کرایا جائے۔ ان کے مطابق 'سہیل اور فصیح اللہ دونوں دوست اور روم میٹ بھی تھے۔ ان سے ساتھیوں کا رابطہ یکم نومبر کی شام پانچ بجے تک رہا جس کے بعد وہ ہوسٹل چلے گئے۔‘
بالاچ کے بقول ’طلبہ کے غائب ہونے پر ہم نے یونیورسٹی انتظامیہ سے رابطہ کیا اور ان سے سی سی ٹی وی کیمرے چیک کرنے کی درخواست کی لیکن انہوں نے معاملے کو ٹال دیا اور ہمیں ریکارڈنگ نہیں دکھائی۔ مطالعہ پاکستان کے یہ دونوں طالب علم اپنے شعبے کے پوزیشن ہولڈر بھی ہیں جبکہ صرف بلوچستان کی سطح پر نہیں بلکہ پاکستان کی سطح پر ٹاپ کرچکے ہیں۔‘
اُدھر بلوچستان یونیورسٹی کی انتظامیہ نے 10 نومبر سے تمام تعلیمی سرگرمیاں بند کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ چند ناگزیز وجوہات کی بنا پر جامعہ کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو تاحکم ثانی بند رہے گی۔ مزید کہا گیا کہ جامعہ کے تمام طے شدہ امتحانات بھی ملتوی کیے جارہے ہیں تاہم ہوسٹلز میں رہائش پذیر طلبہ کے حوالے سے الگ سے نوٹیفکیشن جاری کیاجائے گا۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے بلوچستان یونیورسٹی کے طلبہ کےاحتجاج کا نوٹس لیتے ہوئے مذاکرات کے لیے تین رکنی پارلیمانی تشکیل دے دی ہے۔ حکام کے مطابق کمیٹی 24 گھنٹے کے اندد طلبہ سے بات کرکے رپورٹ پیش کرے گی۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اس حوالے سے تمام متعلقہ ادارے رابطے میں ہیں۔
دونوں طلبہ کے لاپتہ ہونے کےخلاف مقدمہ سریاب تھانے میں فصیح اللہ اور سہیل کے بھائیوں کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے جس میں نامعلوم افراد کے اغوا کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
ایف آئی آر میں فصیح اللہ کے بھائی شہنشاہ نے پولیس کو بتایا ہے کہ یکم نومبر سے ان کے حوالے سے ہمیں کوئی معلومات نہیں ’فون نمبر بند ہونےکے بعد ہم نے پہلے قریبی عزیز اور رشتہ داروں سے معلومات حاصل کیں لیکن جب کچھ پتہ نہ چلا تو ہم نے اغوا کا مقدمہ درج کرانےکا فیصلہ کیا۔‘
پولیس نے مدعی کی درخواست پر دفعہ 365 ت پ کے تحت سہیل اور فصیح اللہ کے اغوا کا مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی ہے تاہم اس حوالے سے ابھی تک کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔
طلبہ کی گمشدگی کے حوالے سے سریاب تھانے کے تفتیشی افسر نادر علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ابھی تک اس معاملے میں کوئی بڑی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔‘
نادر علی نے بتایا کہ ’ہم ہر پہلو سے اس کی تفتیش کررہے ہیں۔ طلبہ کے موبائل کی آخری لوکیشن یونیورسٹی ظاہر ہوئی ہے تاہم انہیں کہاں سے اٹھایا گیا یا خود گئے ہیں اس پر مزید کام جاری ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ابھی تک کوئی گواہ بھی سامنے نہیں آیا جس نے طلبہ کو کسی کو لے جاتے ہوئے دیکھا ہو۔ ہم مسلسل موبائل کے لوکیشن کو چیک کررہے ہیں۔ جو یکم نومبر کے بعد استعمال نہیں ہوا ہے۔‘
لاپتہ ہونے والے سہیل بلوچ کے بھائی جمیل احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کوبتایا کہ ’یونیورسٹی کی انتظامیہ کی طرف سے ہمارے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا گیا۔ بلکہ ہمیں دباؤ میں ڈال کر معاملے کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ سہیل اور فصیح اللہ دونوں دوست ہیں، آج تک ان دونوں نے کبھی کسی خدشے کا اظہار نہیں کیا نہ کبھی کسی خوف کے بارے میں بتایا۔ یونیورسٹی کومحفوظ جگہ تصور کیا جاتا ہے اگر وہاں سے کسی طالب علم کو اغوا کیا جائے تو کچھ محفوظ نہیں، پھر کہاں جائیں؟‘
انہوں نے کہا کہ ’میں نے اپنے بھائی سہیل سے یکم نومبر کو چار بجے فون پر بات کی تھی اور اس کو پیسوں کو ضرورت تھی جو میں نے بجھوائے، پانچ اور چھ بجے کے بعد ان کا ہم سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔‘
دوسری جانب جب یونیورسٹی انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا توایک عہدیدار نے انڈپینڈنٹ اردو کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’طالب علم لاپتہ ہوئے ہیں تاہم یہ بات ابھی تک واضح نہیں کہ انہیں کہاں سے اٹھایا گیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس حوالے سے یونیورسٹی کی انتظامیہ اپنے طور پر تحقیقات کررہی ہے۔ جب کہ جہاں تک طلبہ کی طرف سے سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ دکھانے کا مطالبہ ہے تو یہ پولیس کا کام ہے کہ وہ ان چیزوں کو چیک کرکے تحقیقات کرے۔ کسی عام فرد کو یہ معلومات نہیں دی جاسکتی ہیں۔ طلبہ کا اغوا یا لاپتہ ہونا افسوس ناک ہے اور انتظامیہ کی کوشش ہے کہ ایسے حالات نہ ہوں کہ طلبہ کا نقصان ہو اور ان کے تعلیمی نظام میں خلل پیدا ہو۔‘
انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دے گی کہ وہ ادارے کے اندر کسی طالب علم کے خلاف کارروائی کرے۔ حالیہ واقعہ کےحوالے سے بھی انتظامیہ نہ صرف تحقیقاتی اداروں کے ساتھ تعاون کررہی ہے تاکہ آئندہ ایسا کوئی واقعہ رونما نہ ہو۔