اگر آپ مریم نواز کو صحیح معنوں میں جاننا چاہتے ہیں تو آپ کو اس علم کی طرف دیکھنا ہوگا جو انہوں نے دونوں ہاتوں سے مضبوطی سے تھاما ہوا ہے۔ اس علم کو آپ ’عوامی علم‘ کا نام دے سکتے ہیں۔ یہ علم لہراتی مریم نواز لاہور کے گلی کوچوں میں ہزاروں جوشیلے نوجوانوں سے خطاب کرتی ہے اور پنجاب میں جہاں قدم رکھے، وہاں جلسہ گاہ بنا لیتی ہے۔ یہ وہی علم ہے کہ جس کو اٹھا کر اس خطّے کے عوام نے ہمیشہ ریاستی، نو آبادیاتی، اور فسطائی قوتوں کا مقابلہ کیا ہے۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کے ریاستی نوآبادیاتی قوتیں اپنی ادارتی صلاحیت اور جدید ٹیکنالوجی کے زور پر عوام کا استحصال کرتی رہی ہیں، اور عوام ہمیشہ یہی علم پکڑے ان قوتوں کا مقابلہ کرتے رہے ہیں۔ اس علم کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ ریاستی نوآبادیت کی ہے۔
ہندوستان پر پہلی باضابطہ نوآبادیاتی حکومت مغلوں نے قائم کی۔ مغل شہنشاہ اکبر نے جب پنجاب سے لگان وصولی بڑھانے کے لئے منظّم بیوروکریسی قائم کی، تو اس کے مقابلے میں صاندل بار کے عبداللہ بھٹی، جسے تاریخ دلا بھٹی کے نام سے جانتی ہے، نے اس ’عوامی علم‘ کو بلند کیا۔ دس سال تک دلا بھٹی نے اکبر کی جدید ترک توپوں اور مستقل فوج کا مقابلہ جتھوں اور گوریلہ جنگوں سے کیا۔ اکبر نے دلا بھٹی کے گھر کی عورتوں کو باندی بنا کر اسے گرفتار اور پھر شہید تو کر لیا، لیکن چار سو سال گزرنے کے باوجود آج پنجاب بھر میں لوہڑی شہنشاہ اکبر کی نہیں بلکہ دلا بھٹی کی گائی جاتی ہے۔
دلا بھٹی کے بعد اس ’عوامی علم‘ کو گرو گوبند سنگھ اور خوشحال خان خٹک نے اورنگزیب کی نوآبادیت کے خلاف اٹھایا، اور سخت صعوبتیں برداشت کیں۔ سندھ میں یہی علم صوفی عنایت حسین شہید نے اٹھا کر ’جو کھیڑے سو کھائے‘ کا نعرہ لگایا، اور تمام جاگیرداروں کو سندھ بدر کر کے وہاں کسانوں کی سانجھےداری کا، یعنی کمیونل، نظام قائم کیا۔ گرو گوبند سنگھ، خوشحال خان خٹک، اور صوفی عنایت حسین کو ریاست کے ہاتھوں شکست تو ضرور ہوئی، لیکن سکھ مت کے کروڑوں ماننے والے، خوشحال خان خٹک کی شاعری کے پیروکار، اور صوفی عنایت حسین شہید کے مزار پر حاضری بھرنے والے عقیدت مند آج بھی ان نظریات کو جاوداں رکھے ہوئے ہیں۔
1857 میں جب انگریزوں نے اس خطّے پر اپنی نو آبادی قائم کرنا چاہی، تو پنجاب کا سورما امّو کھرل ان کے آگے دیوار بن کر کھڑا ہو گیا۔ امّو کھرل نے وٹو اور جویہ برادریوں کے ساتھ مل کر انگریزوں کو گانجی بار میں خوب تگنی کا ناچ نچائے رکھا۔ امّو کھرل کے بعد اس علم کو تھامے پیر سبغت اللہ شاہ راشدی، بھگت سنگھ، اور ہیمو کالانی نے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں۔
پاکستان بننے کے بعد حسین شہید سہروردی اور باچا خان نے عوام کے حقوق کے تحفّظ کے لئے ریاستی جبر کا دٹ کر مقابلہ کیا، اور ان کے بعد یہ علم محترمہ فاطمہ جناح اور ولی خان نے اٹھایا۔ بنگال میں مجیب الرحمٰن اور بلوچستان میں سردار عطااللہ مینگل، نواب خیر بخش مری، اور غوس بخش بزنجو نے اس علم کو تھامے دیوانہ وار ریاستی نو آبادیت کا مقابلہ کیا۔ 1970 کی دہائی کے اواخر میں یہ علم شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے اٹھایا اور اس کی خاطر 2007 میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔
اس علم کو تھامنے والے کا گرو گوبند سنگھ جی کی طرح کا پاک دامن سنت ہونا یا باچا خان کی طرح کا خالص نظریاتی ہونا لازم نہیں ہے۔ شہنشاہ اکبر کی نظروں میں دلا بھٹی ایک باغی ڈاکو تھا، خوشحال خان خٹک مغلوں کے خلاف اعلان جنگ کرنے سے پہلے ان کے اتحادی رہے، اور امّو کھرل نے رنجیت سنگھ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ نواب اکبر بگٹی نے بھی تو ایک زمانے میں بلوچستان کے عوام پر بم برسائے، لیکن پھر ان ہی سنگلاخ پہاڑوں میں بیٹھ کر ریاست کے جبر کا کمال بہادری سے مقابلہ کیا۔
اسی طرح، ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز تو ریاستی پشت پناہی سے کیا، لیکن پھر انہی دونوں نے ریاستی جبر کے خلاف علم بغاوت بھی اٹھایا۔ چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے، ذوالفقار علی بھٹو نے یہ ’عوامی علم‘ 1977 میں سنبھالا، اور 1993 میں نواز شریف نے ’میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘ کا تاریخی جملہ ادا کیا۔ پچھلے 27 سالوں میں نواز شریف نے بہتیری بار اس علم کو تھاما، اور بہتیری بار چھوڑا۔ وہ کالا کوٹ پہن کر زرداری حکومت کے خلاف عدالت میں بھی گئے، اور ایک فوجی افسر کی ایکسٹینشن کی خاطر اپنی پارٹی سے اسمبلی میں ووٹ بھی دلوائے۔ لیکن گوجرانوالہ کے جلسے میں دو فوجی افسران کا نام لے کر شاید انہوں نے اپنی واپسی کی کشتیاں جلا ڈالی ہیں۔
میاں صاحب سے آگے بڑھ کر اس ’عوامی علم‘ کو مریم نواز نے کمال مستعدی سے بلند کیا ہوا ہے۔ ان کی سیاست اور ماضی ریاستی قوتوں کے اثر سے صریحاً پاک ہے، اور یہ وصف انہیں بینظیر بھٹو کے قبیلے میں جا کھڑا کرتا ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب تک مریم نواز اس عوامی علم کو تھامے ہوئے ہیں، تب تک وہ عوام میں مقبول رہیں گی، اور عوام اسی طرح جوش و خروش سے ان کی آواز میں آواز ملاتے رہیں گے۔
عوام شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے دشمنوں کو پہچانتے ہیں۔ عوام کو سمجھ آتا ہے کہ ان کے منہ سے روٹی چھین کر گالف کورسز کون تعمیر کر رہا ہے، ان کے بچوں کی تعلیم پر لگنے والے پیسے ہتھیاروں پر کون لگا رہا ہے، اور ان کی آ نے والی نسلوں کی سماجی اور اقتصادی ترقی کے راستے میں کون سی قوت حائل ہے۔ لیکن ریاستی اداروں کے بر عکس، عوام خانوادوں، قبیلوں، ذاتوں، اور قوموں میں بٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس نہ میڈیا کو کنٹرول کرنے کا کوئی ہتھیار ہوتا ہے، اور نہ ہی ان کے بس میں تھانہ، کچہری، اور پٹواری ہوتے ہیں۔ عوام کے پاس گولی، لاٹھی، اور لا محدود وسائل بھی نہیں ہوتے۔ لہٰذا سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی کروڑوں عوام چند ہزار اعلیٰ افسران پر مشتمل انتہائی منظّم اور پر وسائل اداروں کے ہاتھوں بے بس رہتے ہیں۔
ایسے میں جب بھی دلا بھٹی یا مریم نواز جیسی کوئی شخصیت اپنی جان کی بازی لگا کر عوام کے حقوق کی بات کرتی ہے، یا کسی وجہ سے حالات سے تنگ آ کر ریاست کو للکارتی ہے، تو یہ شخصیت عوام کے غم و غصّے کو سمیٹ کر ملکی سیاست کا محور بن جاتی ہے۔ یہ شخصیت منتظم ریاستی نوآبادیت کے آگے عوام کے اجتماعی عمل، یا کولیکٹو ایکشن، کو ممکن بناتی ہے۔ جتنی دلیری سے یہ شخصیت ریاست کا مقابلہ کرتی ہے، اتنے ہی ولولے سے عوام اس کا ساتھ نبھاتی ہے۔ پھر چاہے اس تصادم کا نتیجہ کچھ بھی نکلے، یہ شخصیت عوام کے دلوں پر ہمیشہ راج کرتی ہے اور جاوداں رہتی ہے۔
مریم نواز کون ہے؟ مریم نواز ’عوامی علم‘ کی علم بردار ہے۔ مریم نواز ریاستی جبر کے خلاف کھڑی دیوارہے۔ مریم نواز نوآبادیاتی استحصال کی دشمن ہے۔ مریم نواز مظلوم اور پسے ہوئے عوام کی آواز ہے۔
مریم نواز بینظیر بھٹو ہے۔
مریم نواز باچا خان ہے۔
مریم نواز دلا بھٹی ہے۔