ہمارے قدامت پسند معاشرے میں ہر لڑکی اپنی زندگی میں ایک مرتبہ "رشتہ پریڈ" کے ایک تکلیف دہ مرحلے سے ضرور گزرتی ہے۔ اس دوران جن جملوں، نظروں اور رویوں کا سامنا وہ کرتی ہیں وہ ان کی خود اعتمادی کو ریزہ ریزہ کر دیتے ہیں۔
ایسے ہی ایک چشم کشا تجربے سے میں بھی گزری تھی۔ اس دوران ایک فیملی سے ملاقات ہوئی۔ لڑکے کی والدہ اپنے اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹے کے لئے ایک گھریلو لڑکی کی تلاش میں تھیں اور یہی وہ بنیادی وجہ تھی کہ میں انکے طے کردہ معیار پر پورا بالکل بھی نہیں اترتی تھی۔
لیکن حیرت انگیز بات یہ تھی کہ یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ میں ملازمت پیشہ ہوں ،وہ میرے گھر میں موجود تھیں۔ میرے والد نے میرا تعارف کرواتے ہوئے جب انہیں میرے پڑھنے، لکھنے، مطالعہ کرنے کے شوق اور شادی کے بعد ملازمت جاری رکھنے کے ارادے کے بارے میں بتایا تو ناگواری کے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے خاتون کا کہنا تھا "اچھی بات ہے لڑکیاں جب تک فارغ ہیں تو ضرور جو چاہیں کریں۔"
انہوں نے میرے جذبے اور بنیادی ضرورت کو میرے فارغ اوقات کا مشغلہ بنا کر اسے لڑکیوں کے لئے ایک غیر ضروری کام قرار دے دیا۔ مجھے ان کی بات سن کر تعجب نہیں ہوا کیوںکہ یہ کسی فرد کی نہیں، معاشرے کی عام سوچ ہے جس کی عکاسی وہ ایک خاتون کر رہی تھیں۔
لڑکیاں اپنے گھر والوں، رشتہ داروں، دوستوں، آفس کالیگز سب سے ایسے جملے اور نصیحتیں کئی بار سنتی ہیں جس میں انہیں یہ پیغام دیا جا رہا ہوتا ہے کہ ان کی قابلیت اور پیشہ ورانہ عزائم اور اہداف اہمیت نہیں رکھتے بلکہ یہ وہ عوامل ہو سکتے ہیں جن کے باعث وہ ازدواجی خوشیوں سے محروم رہیں گی۔
ملازمت تو بہت دور کی بات ہے لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم ہی اب بھی بیشتر گھرانوں میں اہم نہیں سمجھی جاتی۔ تاہم کچھ لوگ ہیں جو لڑکیوں کے لئے تعلیم کی اہمیت کو قبول کرتے ہیں لیکن وہ اس لئے کیونکہ لوگوں میں یہ شعور آتا جا رہا ہے کہ اس کے اثرات آنے والی نسلوں کی بہتر تربیت کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت کی تعلیم آنے والی نسلوں کو سنوار دیتی ہے۔ لیکن اس بات کو بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ عورت کی اپنی ایک ذات بھی ہے اور تعلیم حاصل کرنا اس کا بنیادی حق ہے۔
اپنے کنبے کی بہتر دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ اس کے اپنی شناخت قائم کرنے کے لئے بھی کچھ خواب اور مقاصد ہو سکتے ہیں۔ اس کے برعکس کیریئر بنانے کی خواہش مردوں کے لیے تعریف اور خواتین کے اوپر تنقید کا باعث بنتی ہے۔
لڑکیاں اگر اپنے کام سے لگائو رکھیں، معاشی طور پر مستحکم ہوں، اور فیصلہ سازی کی صلاحیت بھی رکھتی ہوں تو ان کو سراہا نہیں جاتا بلکہ اپنے گھر والے بھی ان کے مستقبل کے حوالے سے تشویش کا شکار رہتے ہیں۔ کیوںکہ وہ سوچتے ہیں کہ یہ تمام چیزیں رشتوں میں رکاوٹ کا باعث بنیں گی اوراگر شادی ہو بھی گئی تو تعلیم یافتہ اور بااختیار لڑکیاں شوہر اور سسرال والوں کی تابعدار نہیں ہوں گی۔
صنفی کرداروں کے حوالے سے معاشرے کا ایک زاویہ نظر ہے جس کے باعث بیٹیوں کا گھر کی مالی ذمہ داریوں میں اشتراک قابل قبول نہیں ہے۔ اسی سوچ کے پیش نظر ماں باپ کو بھی خوف ستاتا ہے کہ اگر ان کی بیٹی کام کرے گی تو لوگ یہ تصور کریں گے کہ وہ اپنی بیٹی کی کمائی کھا رہے ہیں جو ان کے لئے رسوائی کا باعث بنے گا۔
بیٹے کی ماں اس کی پہلی تنخواہ سے لایا ہوا ایک جوڑا بھی شان سے زیب تن کرتی اور لوگوں کو بتاتی ہے لیکن بیٹی کے والدین یہ وضاحتیں دیتے رہتے ہیں کہ محض شوق پورا کرنے یا وقت گزاری کے لئے ان کی بیٹی نوکری کررہی ہے۔
اولاد کے کام سے والدین کا سربلند ہو تو اولاد کو دنیا فتح کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ لیکن جب بیٹیوں کی ملازمت والدین کے لئے رسوائی کا باعث بن جائے تو یہ ان کے حوصلے پست کر دیتا ہے۔
چونکہ والدین کے الفاظ اور رویے ہی ہر عمر میں اولاد کی اپنے بارے میں رائے بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اسی لئے جب گھر سے لڑکیوں کی صلاحیتوں اور مہارتوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے تو وہ ان کی شخصیت کو شدید متاثر کرتا ہے۔ وہ احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتی ہیں، اپنی صلاحیتوں پر ان کا بھروسہ کم ہو جاتا ہے، اپنے ہی کام سے غیر مطمئن رہتی ہیں۔
زندگی کی یہ پہلی جنگ جب اپنے ہی گھر والوں سے لڑنی پڑتی ہے تو اکثر جھنجلاہٹ اور چڑچڑاپن بھی لڑکیوں کے مزاج کا حصہ بن جاتا ہے۔ انہیں لوگوں اور سماج کے معیار کے مطابق قابل قبول بنانے کے لئے جو طرز عمل اختیار کیا جاتا ہے، وہ ان کے اندر خوف بھر دیتا ہے۔
انہیں ہر دم بدنامی اور تنہا رہ جانے کے خوف کا احساس دلایا جاتا ہے۔ گھر سے عدم تعاون کے باعث وہ نئے تجربات سے گریز کرنے لگتی ہیں۔ آگے بڑھنے کی امید اور جذبہ آہستہ آہستہ دم توڑنے لگتا ہے اور ایک وقت پر آکر معاشرتی اصولوں کے آگے ہتھیار ڈال دیتی ہیں۔
اس طرح استحصال کا آغاز گھر سے ہی ہو جاتا ہے جس کے بعد سماجی منظوری حاصل کرنے کی ایک ایسی عادت ان میں جنم لے لیتی ہے جس کے باعث وہ اپنی ذات کو فوقیت دینا چھوڑ دیتی ہیں اور ان کا فلسفہ خوشی ہمیشہ کے لئے بس دوسروں کی توثیق سے منسوب ہو کر رہ جاتا ہے۔
وہ اپنی آرزوئوں کا گلا گھونٹ کر معاشرے کی نظروں میں مثالی تو بن جاتی ہیں لیکن یہ تمام صورتحال ان کی نفسیاتی صحت کو شدید متاثر کرتی ہے اور وہ ایک کمزور شخصیت کے ساتھ گھٹ گھٹ کر زندگی گزارتی ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اگر آج آپ اپنی بہن بیٹیوں سے ان کی ذاتی ترقی سے متعلق اہم فیصلے کا اختیار چھین لیں گے تو کیا وہ ان کے لئے آنے والی زندگی میں آسودگی کی ضمانت ہوگا؟
اور اگر نہیں تو کیا آپ ایسا محض سماجی دبائو کے باعث کر رہے ہیں؟ اگر ہاں تو یہ کیسی سماجی بندشیں ہیں جو آپ کو اس طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی آپ اپنوں کے خواب چھین لینے پر مجبور ہو گئے ہیں؟
والدین بھی غور کریں کہ وہ اپنی بیٹیوں کو تمام تر محبت اور شفقت دینے کے باوجود ان کی خود اعتمادی پر جو ضرب لگا رہے ہیں وہ ان کی ساری زندگی کو کس قدر متاثر کرے گا۔
اولاد کی مضبوط شخصیت کی تعمیر میں والدین کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے، اس لئے والدین کو چاہیے کہ وہ معاشرتی اقدار اور روایات کے آگے شکست تسلیم کرنے کے بجائے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کریں۔
اپنی بیٹیوں کی حوصلہ افزائی کریں تا کہ وہ کبھی بھی معاشرے اور خاندان کے ہاتھوں استحصال کا شکار نہ ہوں۔ اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکیں، خود اعتماد، باوقار اور خوددار بن سکیں۔ اپنے فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ سماجی، سیاسی اور معاشی ترقی کی مختلف سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیں۔
اگر آپ بھی صحیح معنوں میں اپنی بہن بیٹیوں کی حقیقی خوشی اور اطمینان کے خواہشمند ہیں تو ان کے خوابوں پر پہرا ڈالنے کے بجائے انہیں ہر دم یہ احساس دلائیں کہ آپ ان کی حمایت میں کھڑے ہیں۔
خواتین کو اپنے حقوق کی تربیت اپنے گھر سے ملنی چاہیے اور یہ شعور بھی کہ اس دنیا میں سب سے پہلے اگر کچھ اہم ہے تو وہ ہے ان کی اپنی ذات جس سے متعلق ہر فیصلہ کرنے کا اختیار صرف اور صرف ان کے پاس ہے اور اس کی تکمیل کسی اور سے منسوب نہیں جس کے لئے انہیں اپنے خوابوں کو قربان کرنے کی ضرورت ہو۔
حرا ایک میڈیا پروفیشنل اور لکھاری ہیں جو بنیادی طور پر سماجی مسائل بالخصوص خواتین کے مسائل پر قلم کشائی کرتی ہیں۔