انسان کو حیوان پر اس لئے سبقت حاصل ہے کہ یہ ذہنی اور جسمانی دونوں صفات کا منبع ہے۔ انسان نے اپنے دماغ سے جسم کے باریک خلیوںسے لے کر ڈھلتے ابھرتے سورج، سمندر کی تہوں میں موجود خزانوں اور آسمان کی وسعتوں میں پھیلے ستاروں تک ہر چیز پر قابو پایا ہے، جس سے اس دنیا کا نقشہ تبدیل ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ انسان کو اب مصنوئی اعضاء تک رسائی حاصل ہے۔
لوگ سمجھتے ہیں وہ خدا اور بندے کو راضی کر رہے ہیں
مگر پھر بھی ایسے لوگ سڑکوں، گلی محلوں، بازاروں، ہوٹلوں پر "اللہ کی توفیق" کے نام پر مانگتے نظر آ تے ہیں جن کو خدا نے چلنے، پھرنے، دیکھنے، سونگھنے اور سب سے بڑھ کر سوچنے سمجھنے کی توفیق دی ہے۔ ان جیسوں کو دیکھ کر ایک باشعور شخص کے دل میں ایک ایسی کیفیت پیدا ہوتی ہے جو غصے اور ترس کے ملاپ سے جنم لیتی ہے۔ مگر اکثریت ایسی ہے جو ان کے ہاتھوں کو پیسوں سے بھر کر سمجھتے ہیں کہ وہ خدا اور بندے دونوں کو راضی کر رہے ہیں۔
صدقہ مستحق کے ہاتھ میں نہیں، مافیا کے ہاتھ میں جا رہا ہے
دوسری طرف یہ مانگنے والے شکر نہیں لالچ کے شکنجے میں آتے ہیں، پھر اس سے ایک سوچ نمودار ہوتی ہے اور اس کا شکار ایسے بھکاریوں کی آنے والی نسلیں ہوتی ہیں جن کے ہاتھوں میں قلم دوات کی بجائے ایک ٹوکری تھما دی جاتی ہے۔ ان کو حلال اور حرام کا فرق نہیں سمجھایا جاتا۔ ہمیں سائل اور مسائل دونوں میں فرق جاننا ہو گا۔ صدقہ خیرات کرنے والے ممالک میں پاکستان نمایاں ہے مگر پھر بھی غربت بڑھ رہی ہے، تو وجہ یہ ہے کہ صدقہ مستحق کے ہاتھ میں نہیں بلکہ خیبر سے کراچی تک کی ہر سڑک پہ نظر آنے والے بظاہر درویش مگر در حقیقت مافیا کے ہاتھ میں جا رہا ہے۔ ہماری سوچ ابھی بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی نظر آتی ہے۔ ہمارے ملک کے معاشی، سماجی اور سیاسی حالات لوگوں کو سڑک پہ بیٹھ کر بھیک مانگنے پر مجبور کرتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ لوگ اس مجبوری کو اپنی ڈھال بنانے لگے ہیں۔
خدا کی حکمت کو نہیں خدا کے نام کو رزق سے جوڑا جا رہا ہے
پہلے آخری حل خدا کہ گھر پہ دستک دینا سمجھا جاتا تھا مگر اس جدید زمانے میں اب وہ حل بھی ناپید ہوتا نطر آ رہا ہے۔ اب خدا کی حکمت کو نہیں خدا کے نام کو رزق سے جوڑا جا رہا ہے۔ لوگوں کو ذہنی طور پر بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ ہماری عوام صدقے کے نام پہ اکثر دھوکہ کھا جاتی ہے، جس سے ان پیشہ ور بھکاریوں کے کاروبار کو مزید تقویت ملتی ہے۔
اب امید عمران خان سے ہی ہے
ہم آزادی کی بعد کاہلی کی اس ساحلی پٹی پر جا کھڑے ہوئے ہیں جس کی ہوا ہمیں دیانتداری اور خودداری کی چٹانوں کو سر کرنے سے روک رہی ہے۔ اب جو عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگایا ہے تو امید کرتا ہوں کہ ایسی پالیسیاں مرتب کی جائیں گی جس سے حقدار کو اس کا حق ملے گا اور ایسے صدقہ اور خیرات کا الگ سسٹم بنایا جائے جس سے دینے والے کو بھی شکوک و شبہات میں مبتلا نہیں ہونا پڑے گا اور نہ ہی کسے مستحق سی زیادتی ہوگی اور ایسی سوچ جو ہاتھ پھیلانے کی طرف راغب کرتی ہے اس کی نفی ہو گی۔