بزرگ بتاتے ہیں کہ ایک بستی کے بادشاہ کا انتقال پر ملال ہوگیا ، بےاولاد تھا شاید !! ورنہ اتنی آرام سے کونسا بادشاہ انتقال کرتا تھا اکثر تو اپنی اولاد کے ہاتھوں مارے جاتے تھے خیر! کہتے ہیں کہ بادشاہ کی وفات پر وزیر باتدبیر نے ایک انوکھا " طریقہ انتخاب " جاری کیا کہ آج سے تین دن بعد جو پہلا شخص بستی کے صدر دروازے پر دستک دے گا وہی ہمارا اگلا بادشاہ ہوگا سو اس "سلیکشن "کے نتیجے میں جو پہلا شخص تین دن بعد صدر دروازے پر آوازہ لگانے آیا وہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے ، سر پر ٹاٹ لگی ٹوپی اور گلے میں کشکول لٹکاۓ ایک عدد "بھکاری "تھا سو بستی والوں کی قسمت میں جو نیا بادشاہ لکھا گیا وہ پیشہ ور بھکاری نکلا.
صدر دروازے پر دستک دے کر بھکاری سے بادشاہ بننے والے کو وزیروں ، مشیروں نے تاجپوشی کا اعلان پڑھ کر سنایا اسکے بعد پھٹے پرانے ٹاٹ لگے کپڑوں کی جگہ شاہانہ لباس زیب تن کروایا گیا ، چھیتڑوں سے بنی ٹوپی ہٹا کر سر پر تاج اور سوراخوں بھرے جوتوں کی جگہ شاہی موزے پہناۓ گیے اور کشکول ؟؟ بھلا بادشاہ کے گلے میں کشکول کیونکر لٹکتا سو سونے چاندی کی دوہری اور سچے موتیوں کی مالا نے کشکول کی جگہ لے لی یوں " بھکاری بادشاہ"کے دن و رات آرام و چین سے گزرنے لگے مگر دنیا میں وہ سکون کہاں جو قبر میں ملتا ہے سو ہمسایہ ملک کے بادشاہ کو کسی نے خبر دے دی کہ برابر والوں کا طاقتور بادشاہ تو لڑھک گیا ہے اب اسکی جگہ ایک ایسے شخص نے لے لی ہے جسکو امور حکمرانی کا اتنا ہی تجربہ ہے جتنا ہمارے عالم پناہ کوبھیک مانگنے کا . ظل الہی نے یہ سنا تو کافی محظوظ ہوے اور کہا کہ بہت عرصے سے اس بستی پر قبضے کے خواب دیکھ رہا تھا جو پچھلے بادشاہوں کی طاقت اور عقل و فہم کی وجہ سے تعبیر نہ پاسکے مگر لگتا ہے اس بار قدرت بھی یہی چاہ رہی ہے کہ ہم اپنے ملک کو مزید وسییع کر لیں سو اے میری سپآہ کے سالارو ! حملے اور قبضے کی تیاری کرو
بستی کے مخبروں کو جب طاقتور ملک سے یہ خوفناک اطلاعات موصول ہوئیں تو بھاگم بھاگ دربار میں پہنچے جہاں سابقہ بھکاری عرف بادشاہ سلامت انگور کھلانے اور پکے راگ سنانے والوں کے درمیان موجود تھے مخبر نے تخلیے کی درخواست کی جسے عالم پناہ نے رد کر کے سرے عام " مخبری " کا حکم دیا مخبر نے ڈرتے ڈرتے کہا جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ ہمسایہ ملک کے بادشاہ اپنی افواج کو حملے کے لیے تیار کر رہے ہیں یہ سن کر بادشاہ سلامت کچھ لمحوں کے لیے ٹھٹکے اور پھر بولے " کرتے ہیں کچھ گھبراؤ نہیں " دربار میں اس جملے سے کافی اطمینان چھاگیا .دو روز گزر گیے اور دشمن ہمساۓ کی فوج اپنے ملک کی سرحدوں سے آگے بھکاری بادشاہ کی بستی کے حدود اربع تک پہنچ گئی مخبر تو مخبر فصیلوں پر کھڑے پہرہ داروں نے بھی دشمن کے عظیم الشان لشکر کی پیش قدمی کو دیکھ لیا اور سب لگے دربار کی طرف دوڑ لگانے جہاں شہنشاہ دوپہر کے بڑے کھانےکے بعد قیلولہ فرما رہے تھے کنیزوں نے "اک پھل موتیے دا " مار مار کر جگایا کہ عالم پناہ ! خدا کی پناہ ذرا باہر کی خبر لیں کہ دشمن سرحدوں تک پہنچ گیا ہے. بادشاہ سلامت ہڑبڑا کر اٹھے دشمن افواج کی پیشقدمی کی خبریں سنیں اور بولے "ٹھیک ہے سمجھ گیا کرتے ہیں کچھ اس سلسلے میں " عوام میں جو ٹینشن دشمن افواج کے بوٹوں کی دھمک سے پھیل گئی تھی قدرے کم ہوئی
ابھی عوام نے قبر سے باہر ہی سکون کا سانس لیا تھا کہ صدر دروازے پر توپوں کے گولے اوربستی کے پہریداروں پر دشمن کے اڑتے تیروں کی بوچھاڑ ہوگئی عوام جو بادشاہ سلامت کی طرف سے پالیسی بیان اور جنگی چالوں کو عملی جامہ پہنانے کا انتظار کررہےتھےسخت خوفزدہ ہو گیے اپنے گھروں، دکانوں ،کھیتوں ،کھلیانوں کو چھوڑ کر محل کی طرف چل نکلے اور دوسری طرف دشمن ملک کی فوج نے بھی محل کی طرف رخ کیا اور راستے میں جس نے بھی اس پیشقدمی کو روکنے کی کوشش کی اسکو موت اور تباہی کا منہ دیکھنا پڑا یہ حالت زار بستی کی افواج کے سپہ سالار اور امور مملکت چلانے والے وزراء اور مشیروں کے ذریعے شہنشاہ تک پہنچی تو وہ سمجھ گیا کہ اب پانی سر سے اسقدر اونچا ہوچکا ہے کہ زیادہ دیر ناک منہ بند کر کے اس پانی میں رہنا موت کو دعوت دینا ہے عوام کے غیض و غضب سے بھرے نعرے محل کی در و دیوار کو ہلا رہے تھے تو دشمن کی توپیں زمین کو لرزہ رہی تھیں ایسے میں " بھکاری بادشاہ " نے بھرے دربار میں اعلان کیا " میں نے فیصلہ کر لیا ہے " تمام درباری منتظر تھے کہ بادشاہ اپنا فیصلہ سناۓ جس پر عملدرآمد سے بستی اور بستی کے عوام کو دشمن کی چیرہ دستیوں سے بچایا جاۓ کہ دیکھتے کیا ہیں عالم پناہ نے اپنی خوابگاہ کی طرف دوڑ لگا دی اور کچھ لمحوں بعد خوابگاہ سے ظل الہی کی جگہ ایک پھٹے پرانے کپڑوں ، ٹوٹی جوتی اور کشکول گلے میں ڈالے بھکاری نمودار ہوا ،گلا صاف کر کے بولا " بھائیوں ! یہ حکومت وغیرہ تو میرے بس کی بات نہیں ہاں اگر کبھی بھیک وغیرہ مانگنی ہو تو خاکسار کو ضرور یاد کر لینا آپکی نوازشات کا شکریہ میرا تو اس مملکت میں کچھ لینا دینا نہیں سو جو کشکول اور ٹاٹ پہن کر آیا تھا وہی پہن کر جا رہا ہوں اب آپ جانیں اور آپکی بستی