اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی جائیداد ضبطگی کے احکامات واپس لے لئے۔
احتساب عدالت نے لاہور میں 1650 کنال سے زائد زرعی اراضی، مرسڈیز اور لینڈ کروزر گاڑیاں نواز شریف کو واپس لوٹانے کا حکم دے دیا ہے۔ جب کہ سابق وزیراعظم کے منجمد کیے گئے بینک اکاؤنٹس بھی بحال کرنے کا آرڈر جاری کردیا گیا ہے۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کو آگاہ کیا گیا کہ نواز شریف نے عدالت کے سامنے سرینڈر کر دیا ہے اور ان کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ اس لیے ان کی جائیدادیں ضبط کرنے کا حکم واپس لیا جا سکتا ہے۔
نواز شریف کے وکیل مصباح الحسن قاضی نے جج کو آگاہ کیا کہ ان کے مؤکل ہائی کورٹ کی اجازت سے اپنے علاج کے لیے بیرون ملک گئے تھے۔ تاہم ان کے خلاف نیب ریفرنس دائر کیا گیا اور ضابطہ فوجداری (سی آر پی سی) کے سیکشن 87 اور 88 کے تحت ان کی جائیدادوں کو ضبط کرنے کے لیے کارروائی کی گئی۔
انہوں نے مزید استدلال کیا کہ نواز شریف کے اثاثوں کو ضبط کرنے کے حوالے سے منظور کیے گئے عدالتی حکم میں سی آر پی سی کے سیکشن 88(4) کے تحت جائیداد ضبطگی کے طریقہ کار کا ذکر نہیں کیا گیا۔
نواز شریف کے وکیل نے مزید کہا کہ عدالتی حکم نامے میں اس حوالے سے طریقہ کار وضع کرنا لازمی ہوتا ہے لہٰذا جائیداد ضبطگی کا حکم قانون کے مطابق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے ابھی تک نواز شریف کے اثاثے اپنے قبضے میں نہیں لی۔ بینک اکاؤنٹس سے رقم کی کوئی منتقلی نہیں ہوئی اور نہ ہی ان کا کوئی اثاثہ فروخت ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جائیداد ضبطگی کا حکم غیر قانونی ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج محمد بشیر نے ریمارکس دیےکہ درخواست گزار عدالت میں پیش ہو چکے ہیں اور ان کے خلاف جاری ہونے والے وارنٹ گرفتاری کو بھی منسوخ کر دیا گیا ہے لہٰذا یہ درخواست منظور کی جاتی ہے اور یکم اکتوبر 2020 اور 22 اپریل 2021 کا حکم نامہ منسوخ کیا جاتا ہے۔ بعدازاں عدالت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف کی جائیداد واپسی کے احکامات جاری کیے۔
2020میں نوازشریف کو اشتہاری قرار دینے کے بعد جائیداد ضبطگی کے احکامات جاری ہوئے تھے۔ سابق وزیراعظم کی لاہور میں 1650 کنال سے زائد زرعی اراضی اور گاڑیاں ضبط ہوئی تھیں۔