دیوالی نیکی کی بدی پر جیت کی یاد میں منایا جانے والا سناتن دھرم کا سب سے بڑا مذہبی ہے۔ روایتی مذہبی تہوار یوں تو دنیا کے سب ہی مذاہب میں انسانیت، امن، پیار اور بھائی چارے کا درس دیتے ہیں، ہندو برادری کا صدیوں پرانا قدیم مذہبی تہوار دیوالی جسے دیپاولی بھی کہا جاتا ہے، انہی خوشیوں کے تہوار میں سے ایک ہے جو پاکستان، بھارت سمیت دنیا بھر میں خاص اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ جس رات کو ہندو دیوالی مناتے ہیں، اسی رات کو جین پیروکار مہاویر کے موکش (نجات) پانے کی خوشی میں جشنِ چراغاں دیوالی مناتے ہیں۔ سکھ پیروکار اس تہوار کو بندی چھوڑ دیوس کے نام سے مناتے ہیں۔ اس تہوار کو صرف ہندو برادری ہی نہیں بلکہ دنیا میں بسنے والے تمام مذاہب کے لوگ نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ دھوم دھام سے مناتے ہیں۔
سناتن دھرم کے ماننے والوں کے مطابق بھگوان شری رام چندر جب راون کی لنکا فتح کر کے اپنی اہلیہ سیتا اور آباد قوم کو ظلم سے نجات دلاتے ہوئے 14 سال کا بن واس کاٹنے کے بعد واپس اپنے گھر ایودھیا لوٹے تب لوگوں نے برائی پر نیکی کی جیت کی خوشی میں بے حد خوشیاں منائیں، گھروں پر دیپ جلا کر چراغاں کیا اور ہاتھوں سے بنی مٹھائیوں کا پرساد تقسیم کر کے تہوار کا آغاز کیا۔
ہندو برادری کے مرد و خواتین اس مذہبی تہوار پر نہ صرف گھروں کو صاف ستھرا کر کے برقی قمقموں اور چراغوں سے سجاتے ہیں بلکہ گھروں میں انواع و اقسام کے کھانے اور مٹھائیاں تیار کرنے کے ساتھ برادری، دوست احباب اور محلوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ مرد و خواتین گیتوں پر رقص کر کے ڈانڈیا ڈانس کھیلتے ہیں۔ یہ ایک دلکش نظارہ ہوتا ہے جسے ہزاروں لوگ دیکھنے کے لیے مندروں میں جا کر ساری رات خوشیان مناتے ہیں۔
اس تہوار سے جڑی ایک اور قدیم روایت یہ بھی ہے کہ یہ ایک موسمی تہوار میں شمار کیا جاتا ہے۔ موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور ایسے میں حشرات الارض جنم لیتے ہیں جن میں بعض مہلک بھی ہوتے ہیں۔ ایسے میں گھروں کی صفائی نہایت ضروری ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو برادری دیوالی کے موقع پر مکانوں اور دکانوں میں رنگ روغن کرواتے ہیں تاکہ دیواروں کے ساتھ چپکے جراثیم اور کونے میں چھپے کیڑے مکوڑے مر جائیں اور مختلف اقسام کی بیماریوں کے خطرات ٹل جائیں۔
مہاراج اشوک نے بتایا کہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں عمر کوٹ واحد شہر ہے جہاں مذہبی ہم آہنگی کی مثال دور دور تک سنی جاتی ہے۔ یہاں مسلمان بھی پوجا کر کے پٹاخے پھوڑتے ہیں جبکہ ایک ہی تھالی میں کھانہ کھاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم اہنا مذہبی تہوار نہایت جوش اور جذبے کے ساتھ پُرامن طریقے سے مناتے ہیں۔ یہ تہوار دیوں کی جوت سے زندگی میں اندھیرا ٹل جانے کی امید اور مایوسی کی فتح کا تہوار ہے جس کے دوران ہر مذہب کے لوگ اپنی رسومات ادا کرنے میں آزاد ہیں۔
نوجوان ہریش مالہی کا کہنا ہے کہ دیوالی کے دن چھوٹے بڑے سب ہی رنگ برنگے لباس زیب تن کر کے بن سنور کر مبارک باد دیتے ہیں، ایک دوسرے کے گھر جاتے ہیں، شام ڈھلتے ہی گھروں میں چانول سے غیر شادی شدہ خواتین منفرد رنگولیاں گھر کے آنگن میں بنانے کی جفاکشی کرتی ہیں جس طرح بھگوان شری رام چندر کی کامیابی کے بعد آمد پر بچے و بچیوں نے ان کا استقبال کیا تھا۔ ویسے تو یہ تہوار 5 دن کا تصور کیا جاتا ہے جو دھن تیرس سے شروع ہوتا ہے جس کو دیوالی کا پہلا دن مانا جاتا ہے۔ اس دن صبح سویرے اُٹھ کر ہندو برادری اپنے دیوی دیوتاؤں کی آرتی کرتے ہیں اور رات کو لڑکیاں مہندی لگا کر خوب بناؤ سنگھار کرتی ہیں۔
دیوالی کا دوسرا نام دیپاولی بھی ہے، دیپ بمعنی دیا اور آولی بمعنی قطار، یعنی کہ چراغوں کی قطار۔ یہی وجہ ہے کہ اسے روشنیوں کا تہوار بھی کہا جاتا ہے۔
دھن تیرس کے دن لوگ سونے، چاندی یا کسی بھی دھات کی خریداری کو نیک شگون مانتے ہیں۔ دوسرا دن نرک چتورداس، تیسرا دن دیوالی جبکہ چوتھا دن گووردھن پوجا اور پانچواں دن بھیادوج یعنی بہن بھائی کے رشتے کو مضبوط بنانے سے متعلق ہے۔
دھن تیرس کے موقع پر صبح کو ماتا لکشمی دیوی کی پوجا کرتے ہیں تا کہ دھن دولت کا آشرباد بنا رہے جبکہ پوجا کے بعد ہندو تاجر دکاندار بھی خاص طور پر نئے کھاتے کھولنا نیک فال سمجھتے ہیں تا کہ سال بھر وہ خوب نفع کمائیں اور ان کا کاروبار ترقی کرے۔ جبکہ اس دن جھاڑو خریدنا بھی شامل ہے۔ دھن تیرس کے دوسرے دن روپ چئوڈس جسے نرک چترداس بھی کہا جاتا ہے، اس دن گھر کے تمام چھوٹے بڑے افراد صبح سویرے اٹھ کر نہا دھو کر نئے تیار شدہ کپڑے پہن کر بڑوں کے پاؤں پر ہاتھ رکھ کر آشیرواد لیتے ہیں تا کہ ان کی زندگی میں دیوں کی طرح اجالا بنا رہے۔ اس کے بعد پھر سب سے بڑا دن دیوالی ہوتا ہے جس کو دیپاولی بھی کہا جاتا ہے۔
دیوالی کے خوشی بھرے تہوار پر ماتا لکشمی کی پوجا کر کے تمام ہندو برادری عمر کوٹ میں واقع مہادیو کے مندر میں جمع ہوتی ہے جہاں 2 ہزار سے زائد دیے جلائے جاتے ہیں اور آتش بازی کا بھی خوبصورت نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ بچے بھی ٹولیوں کی شکل میں جمع ہو کر پھلجھڑیاں جلاتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک طرف پٹاخے اور پھلجھڑیاں تو دوسری طرف مندروں، چھتوں، دروازوں، کھڑکیوں غرضیکہ ہر جگہ ہی موم بتیوں اور دیوں کی قطاریں منور ہوتی ہیں۔ برقی قمقموں کی لڑیاں مختلف رنگوں کی عجب بہار پیدا کرتی ہیں۔ نیلا، سفید، سرخ، ہرا ہر رنگ اپنا سما باندھتا ہے۔ اس وجہ سے اس تہوار کو روشنیوں کا تہوار بھی کہا جاتا ہے۔
صحافی دلیپ کمار نے بتایا کہ ہندو برادری پاکستان میں اپنے مذہبی تہوار بالکل آزاد ماحول میں مناتی ہے۔ مسلم بھائیوں کی عید پر ان کے گھر جا کر انہیں مبارک باد دیتے ہیں اور جب ہمارے چھوٹے بڑے مذہبی تہوار آتے ہیں تو وہ بھی ہماری رسومات میں شریک ہو کر امن، پیار اور بھائی چارے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ آج ماتا لکشمی سے اپنے گھر کی سکھ سمپتی، پاکستان کی سلامتی، خوشحالی اور بقا کے لیے بھی دعائیں مانگی ہیں۔ دیوالی کے پُرمسرت موقع پر موم بتیوں، پٹاخوں اور دیوں کی خریداری عروج پر ہوتی ہے جہاں دیے بنانے والے کمھاروں کا روزگار بھی اچھا چلتا ہے جبکہ دیوالی کے دن مٹھائیاں بنانے والے حلوائی بھی خوب محنت کے ساتھ بھاری مقدار میں مٹھایاں بناتے ہیں۔
ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے جئے کمار نے بتایا کہ دیوالی کے دن مندروں میں جو دیا روشن ہوتا ہے وہ پانچ دن تک بغیر بجھائے روشن کرنا پڑتا ہے جس کے لیے ہندو برادری رات میں بھی اٹھ کر دیسی گھی سے دیے کو روشن کرتی ہے۔ یہ تہوار دھن تیراس سے شروع ہوتا ہے، ناراکا چتردسی دوسرے دن منائی جاتی ہے، تیسرے دن دیوالی، چوتھے دن دیوالی پاڑوا، جو کہ شوہر بیوی کے رشتوں کے لیے وقف ہے اور پانچواں دن بھاوبیج، بھائی بہن کے رشتوں لیے مخصوص ہے۔ اس طرح یہ تہوار اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔
دیوں کی جوت سے زندگی میں اندھیرا ٹل جانے کی امید اور مایوسی کی فتح کے تہوار پر پاکستان بھر میں ایک دن کی سرکاری تعطیل کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ تمام ہندو ملازمین کو تنخواہیں بھی تہوار سے پہلے ادا کر دی گئی ہیں تا کہ وہ دھوم دھام سے دیوالی کی خوشیاں منا سکیں۔