وزیراعظم عمران خان نے تمام شعبوں کی نگرانی کے لیے رحمت اللعالمین ﷺ اتھارٹی کے قیام کا اعلان کر دیا

وزیراعظم عمران خان نے تمام شعبوں کی نگرانی کے لیے رحمت اللعالمین ﷺ اتھارٹی کے قیام کا اعلان کر دیا

وزیراعظم عمران خان نے تمام سماجی اور معاشرتی شعبوں کی نگرانی کے لیے رحمت اللعالمین ﷺ اتھارٹی کے قیام کا اعلان کر دیا ہے۔ وزیراعظم کے اعلان کے مطابق سیرت نبی ﷺ بچوں اوربڑوں کو پڑھانے کا طریقہ کار طے کریں گے، اسکولوں کے نصاب کی نگرانی کی جائے گی، انہوں نے کہا کہ اس اتھارٹی کی نگرانی میں خود کروں گا۔

تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے رحمت اللعالمین ﷺ اتھارٹی کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے اس کے اغراض و مقاصد سے بھی آگاہ کردیا۔

اسلام آباد میں رحمت اللعالمین ﷺ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے اتھارٹی کے قیام کا اعلان کیا اور کہا کہ ہم اس کے ذریعے سیرت نبی ﷺ بچوں اوربڑوں کو پڑھانے کا طریقہ کار طے کریں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے اتھارٹی کی نگرانی خود کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اتھارٹی کے چیئرمین کی تلاش شروع کردی ہے، دنیا کے بہترین مذہبی اسکالرز کو چیئرمین بنایا جائے گا، جو اسلام سے متعلق دنیا کو آگاہ کرے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ میں روز اپنی زندگی کا تنقیدی جائزہ لیتاہوں،میں نے اپنی زندگی میں بہت دیرسےنبی ﷺکی زندگی کامطالعہ کیا، ہم جن کورول ماڈل سمجھتےہیں ان کوتباہی کی طرف جاتےدیکھا، انسان کےپاس ہمیشہ 2 ہی راستےہوتےہیں،ایک ناجائز دولت کمانے اور دوسرا نبی ﷺکی سیرت پر چلنا ہے، اللہ ہمیں حکم دیتاہےنبی کریم ﷺ کی زندگی سے سیکھو۔

انہوں نے کہا کہ 12ربیع الاول سب مناتے ہیں لیکن نبی ﷺکی زندگی پرعمل نہیں کرتے، حضرت محمدﷺ رحمت اللعالمین تھے، رحمت المسلمین نہیں، حضرت محمدﷺ دنیا کیلئے رحمت بن کر آئے تھے، مدینہ کی ریاست کے اصولوں پرچلیں گے تو ملک ترقی کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ جب پہلی دفعہ انگلینڈ گیا تو 18 سال کا تھا وہاں جو ماحول دیکھا وہ زمان پارک سے بالکل مختلف ماحول تھا اور اس وقت جو رول ماڈل تھے ہم نے ان کی پیروی کی اور وہ مختلف تھے۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ میں اس وقت تک نہیں سوتا تھا جب تک پورے دن کے کاموں کا جائزہ نہ لیتا تھا جو میں سمجھتا ہوں ایک صفت ہے، دن میں کیا کھویا کیا پایا، ہمیشہ اپنا تجزیہ کرتا تھا تو جو رول ماڈل تھے اور ان کو قریب سے دیکھا تو مجھے آہستہ آہستہ سمجھ میں آنا شروع ہوا، جو ہم نماز میں کہتے ہیں کہ اللہ ان کے راستے پر چلا جن کو آپ نے نعمتیں بخشی ہیں، یہ وہ نہیں ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ دنیا کا سب سے بڑا انقلاب 625 اور 636 اور 637 کے درمیان آیا تھا، اور اگر یورپ میں یہ ہوتا کتنی کتابیں لکھی جاتیں اور فلمیں بنی ہوتی۔ مجھے اپنی زندگی میں اتنی دیر بعد پتا چلا تو یہاں بیٹھے ہوئے اکثر لوگوں کو یہ نہیں پتا کہ کیا ہوا تھا، وہ دنیا کی تاریخ کا بہت بڑا واقعہ تھا، جس کو آپ سمجھ نہیں سکتے۔

انہوں نے کہا کہ 625 میں جنگ بدر میں 313 لوگ ہوتے ہیں، 636 اور 637 میں دو سپر پاورز نے 11 اور 12 سال میں گھٹنے ٹیک دیے، یہ کیا ہوا تھا، اس پر کوئی تحقیق ہوئی، کسی نے ہمیں بتایا گیا، ہمارے بچوں کو پتا ہے کہ ہوا کیا تھا؟

ان کا کہنا تھا کہ جب آپ اس کے پیچھے جائیں گے تو ایک چیز پتا چلے گی کہ نبی ﷺ وہ شخصیت تھے جو یہ انقلاب لے کر آئے تھے، ایک تو ان کی شخصیت تھی دوسرا مدینے کی ریاست تھی جو ان کی سنت تھی، تو تب مجھے پتا چلا کہ اللہ کیوں کہتے ہیں کہ ان کی زندگی سے سیکھو۔ اللہ ہمیں اس لیے حکم کر رہے ہیں کہ اگر اپنے ملک کو مدینہ کی ریاست کے اصولوں پر کھڑا کروگے تو آپ کا ملک اٹھ جائے گا، آپ اگر ان کے کردار کو اپنانے کی کوشش کروگے تو آپ اوپر جائیں گے۔

تقریب سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ ہم ربیع الاول مناتے ہیں، پٹاخے اور آتش بازی کرتے ہیں، خوشیاں مناتے ہیں لیکن کیا ان کی زندگی پر ہم عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا نہیں کرتے، یہ ایسے ہی ہے کہ ہم قرآن مجید کو گھر میں رکھا ہوا اور سارے اس کو بڑے ادب سے اٹھا رہے ہیں پڑھ نہیں رہے ہیں کہ اس کے اندر کیا لکھا ہوا ہے۔ حضور ﷺ کے لیے جان دینے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں لیکن ان کے کردار سے تو سیکھیں، کیا ان کے کردار پر چل رہے ہیں یا نہیں، اللہ کا حکم ہے کہ ان کی سنت پر عمل کرو۔

ان کا کہنا تھا کہ حضورﷺ کی ساری محنت انسانوں کے لیے تھی، دنیا کی بڑی جمہوریتیں ہیں وہاں کوئی یہ تصور کرسکتا ہے کہ خلیفہ وقت حضرت علی ایک یہودی شہری سے عدالت میں کیس ہار جاتے ہیں، حضرت علی کا مقام دیکھیں کتنا بڑا تھا لیکن جج کہتا ہے میں آپ کی بیٹی کی گواہی قبول نہیں کرتا، یہ انسانیت کا نظام تھا اور سب انسان برابر تھے، ایک یہودی کو بھی ملک کے سربراہ سے وہی انصاف مل رہا تھا۔

سیرت نبوی ﷺ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ انسانوں کو اکٹھا کرنے کا تصور تھا، قیادت کا پیمانہ دیا کہ ایک قائد انسانوں کو اکٹھا کرتا ہے، نفرتیں پھیلا کر تقسیم نہیں کرتا، یہ نہیں کہتا ہے کہ ہندو سب سے عظیم قوم ہے باقی سب نیچے ہیں، انصاف سارے انسانوں کے لیے ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو پیغام وہ لے کر آئے تھے وہ سب سے بڑا تھا کہ انسان اکٹھے ہیں اور وہ رحمت اللعالمین ہے، پھر ان کو دیکھتے دیکھتے لوگ لیڈر بن گئے، اگر آپ 623 کے بعد مطالعہ کریں تو اتنے مختصر وقت میں اتنے بڑے لیڈر پیدا نہیں ہوئے، جو ان کو دیکھتا تھا، وہ لیڈر بن گیا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ حضرت بلال ایک غلام تھے لیکن انہوں نے دو مرتبہ عسکری مہم قیادت کی تھی تو سب ان کو دیکھ کر عظیم لوگ بن گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ انصاف انسان کو آزاد کردیتا ہے، کمزور کو انصاف چاہیے، طاقت ور این آر او چاہتا ہے، کمزور کو طاقت ور سے تحفظ چاہیے اور جب آپ انصاف دیتے ہیں تو ایک معاشرے کو آزاد کردیتے ہیں، اس لیے دنیا میں جتنے بھی خوش حال ملک ہیں، ان میں قانون کی بالادستی ہے اور وہ اوپر چلے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم کی وجہ سے مسلمان بڑھے، پھر جتنے بڑے سائنس دان تھے ان کو دیکھ لیں وہ سارے زندگی اور قرآن پر تجزیہ تھا اور پھر وہ سائنس دان بھی تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ حضورﷺ کی شخصیت کی تین خصوصیات پہلی صادق اور امین، پھر انسانوں کو خوف سے آزاد کرادیا، جو انسان کو غلام بنادیتا ہے، میں یہ چاہتا ہوں یہ سب ہمارے طلبا کو معلوم ہو، یہ تاریخ کا حصہ ہے۔

عمران خان نے کہا کہ ہمارے ملک کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ اگر ہم نے اپنے ملک کو اٹھانا ہے جب تک ان کی سنت پر نہیں چلیں گے یہ ملک نہیں اٹھ سکتا، یہ میرا ایمان ہے کیونکہ ہمارے اندر ایسے چیزیں آگئی ہیں جو ملک کو آگے جانے سے روک رہی ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ دوسری بات ہے فحاشی کی، جب انسان فحاشی کی بات کرتا ہے تو یہاں ایک طبقہ ہے، جو اپنے آپ کو لبرل کہتا ہے، وہ شور مچادیتا ہے کہ کتنا بڑا ظلم ہوگیا، پتا نہیں ہمیں پیچھے لے کر جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پردہ صرف عورت یا مرد کے کپڑوں کی بات نہیں ہے بلکہ ایک مجموعی تصور ہے کہ معاشرے میں خاندان کے نظام کو بچانے کے لیے کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جیسے یہاں مغربی اثرات پڑ رہے ہیں تو یہاں بیٹھے لوگ مغربیت کو اپنا لیتے ہیں لیکن ان کو پتا نہیں ہوتا کہ اس کے کیا اثرات ہوتے ہیں، ہمارے یہاں اسکالر شپس ہونی چاہیے تھی تاکہ جانتے کہ اس کے اثرات کیا ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جہاں 14 شادیوں میں ایک طلاق ہوتی تھی، دیکھتے ہی دیکھتے آج 70 فیصد شادیوں میں طلاق ہوتی ہے، میں نے خود دیکھا کہ طلاق پر بربادی بچوں پر آتی ہے کیونکہ بچوں کو ماں باپ چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ قصور میں ایک ڈی آئی جی کو جنسی جرائم کی تحقیق کے لیے بھیجا تو تکلیف دہ رپورٹ آئی لیکن اس حوالے سے کوئی کام نہیں ہوا ہے، یہ چیزیں ہولی ووڈ سے آتی ہیں، ہولی ووڈ سے بولی ووڈ اور پھر یہاں یہ کلچر آرہا ہے، کسی نے سوچا ہے کہ ہولی ووڈ کی وجہ سے وہاں کے خاندان کے نظام کو کتنا نقصان ہوا، ایک شادی ایوریج ڈھائی سال چلتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک ہم اپنے نوجوانوں کو بتائیں گے نہیں کہ یہ دو طرز زندگی ہیں، آپ کا انتخاب ہے لیکن بتائیں تو سہی کہ اس سے معاشرے پر کیا اثرات ہوں گے۔

عمران خان نے کہا کہ کرپشن سے معاشرہ لڑتا ہے، قانون سے نہیں لڑتے اور جنسی جرائم سے بھی سارا معاشرہ مقابلہ کرتا ہے، سارے معاشرے کو فیصلہ کرنا پڑتا ہے، اس پر ہمارے اسکالر اور عالم پر بڑی ذمہ داری آگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بچوں کے لیے فون پر ایسا مواد موجود ہے جو دنیا میں کبھی نہیں تھا، اس لیے اس کا مقابلہ کرنا ہے، منشیات اسکول تک پہنچ گئی ہیں اس کے لیے کام کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا کلچر مختلف ہے اور جو کارٹون میں کلچر آرہا ہے وہ بڑا مختلف ہے، اس لیے بچوں میں کنفیوژن ہو رہی ہے، ہمیں بچوں کو اپنی تہذیب سے آگاہ کرنا چاہیے، کیونکہ ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کو روک نہیں سکتے اور نہ ہی نبی اکرم ﷺ کے راستے کا بتاسکتے ہیں۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ اتھارٹی کے ذریعے اسکولوں کے نصاب کی نگرانی کی جائے گی۔ وزیر اعظم نے 12 ربیع الاول دھوم دھام سے منانے کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ یہ ہمارے لیے بہت خوشی کا دن ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ رحمت اللعالمین اتھارٹی دنیاکوبتائےگی کہ اسلام کیا ہے، بچوں کواپنےکلچرسےمتعرف کرانےکیلئےکارٹون سیریز متعارف کرائی جائیں گی، اتھارٹی کا ایک ممبر میڈیا پر نشر ہونے والے مواد پر نظر رکھے گا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میری والدہ نے ہمیشہ سیدھے راستے پر چلنے کے لیے دعا مانگنے کی تلقین کی، میں نے اللہ سے ہمیشہ سیدھے راستے پر چلنے کی دعا مانگی۔انہوں نے کہا کہ جیسا میں آج ہوں ویساپہلےکبھی نہیں تھا، آج دیکھ رہا ہوں موجودہ دورمیں نوجوان نسل انتہائی دباؤکاشکار ہے، میں آج نئی نسل سے متعلق بات کرنا چاہتا ہوں لائے۔