ڈیجیٹل سکیورٹی صحافیوں کا اہم مسئلہ بنتی جا رہی ہے

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آرایف) نے دسمبر 2017  میں  ڈیجیٹل سیکیورٹی کے حوالے سے ایک سروے کیاتھا جس کی رپورٹ 2018 میں جاری کی گئی۔ رپورٹ کے  مطابق 66 فیصد صحافیوں جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں انٹرنیٹ پر ڈیجیٹل سیکیورٹی مسائل کاسامنا کرنا پڑا ہے ۔ جن میں اکاونٹ کا ہیک ہونا، آن لائن ڈیٹا کی چوری، آن لائن ہراسمنٹ، دھمکیاں، بلیک میلنگ سمیت دیگر مسائل شامل ہیں۔

ڈیجیٹل سکیورٹی صحافیوں کا اہم مسئلہ بنتی جا رہی ہے

پاکستان میں جہاں ایک طرف ڈیجیٹل میڈیا تیزی سے ترقی کررہا ہے اور صحافی پیشہ وارانہ سرگرمیوں کی انجام دہی کے لئے ڈیجیٹل پلیٹ فارم اورڈیوائسز استعمال کرتے ہیں۔ وہیں صحافیوں کے لئے ڈیجیٹل سکیورٹی کی ضرورت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ صحافیوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور موبائل فون ہیک ہوجانا معمول بنتاجارہاہے۔ ماہرین کا کہنا ہے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق صحافیوں کو ڈیجیٹل سکیورٹی محفوظ بنانےسے متعلق آگاہی اور تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ 

ڈیجیٹل اِن-سکیورٹی اورسائبرحملے کا شکار

لاہور کے رہائشی اورسینئرصحافی احمد قریشی ڈیجیٹل اِن-سکیورٹی اوراکاونٹ ہیکنگ کا شکار ہونیوالوں میں شامل ہیں۔ احمد قریشی کے مطابق گزشتہ سال ان کا جی میل اکاونٹ اور ٹوئٹر اکاونٹ ہیک کرلئے گئے تھے۔ ہیکر نے ان کے جی میل سے منسلک یوٹیوب چینل میں کافی تبدیلیاں کردیں جبکہ ٹوئٹراکاونٹ پر بھی ناصرف تمام ذاتی معلومات کو بدل دیا بلکہ اس طرح کا ڈیٹا شیئر کیا جو ٹوئٹر رولز کے خلاف تھا۔

احمد قریشی نے بتایا کہ انہوں اس حوالے سے گوگل اوریوٹیوب انتطامیہ کو ریکویسٹ بھیجی۔ ویری فکیشن کے بعد ان کا اکاونٹ بحال ہوگیا تھا تاہم اس میں تین سے چاردن لگے تھے۔ جبکہ ٹوئٹر اکاونٹ کو ریکورکرنے کے لئے ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی مدد لی گئی۔ان کے بتائے گئے طریقے سے ٹوئٹر انتظامیہ سے رابطہ کیا اور ان کا اکاونٹ ریکور ہوگیا تھا۔ لیکن چند ہفتوں بعد ٹوئٹر نے رولز کی خلاف ورزی کو جواز بناتے ہوئے ان کا اکاونٹ مستقل طور پربند کردیا جو کئی باراپیل کرنے کے باوجود بحال نہیں ہوسکا۔ احمد قریشی کے مطابق ٹوئٹر اکاونٹ انہوں نے 2011 میں بنایا تھا جو ٹوئٹرسے ویری فائیڈ تھا جبکہ ان کے فالورزکی تعداد بھی ہزاروں میں تھی۔

لاہور سے ہی تعلق رکھنے والی خاتون صحافی عائشہ عامر نے بتایا کہ ان کے موبائل فون کا ڈیٹا ہیک کرلیا گیا تھا۔ موبائل میں ان کے دوستوں کے فون نمبرز کے علاوہ ذاتی اورفیملی کی تصاویر اور ویڈیوز بھی تھیں۔ عائشہ عامر کہتی ہیں کہ انہوں نے اس بارے فورا ایف آئی اے سائبرکرائم ونگ کو آگاہ کیا تھا۔جبکہ موبائل فون کی ماسٹرسیٹنگ کرناپڑی تھی۔ان کا جوڈیٹا گوگل ڈرائیو میں سیوتھا وہ تو ری کورہوگیا لیکن موبائل کی میموری میں موجود تمام ڈیٹا ضائع ہوگیا تھا جس کا انہیں بہت افسوس ہے۔ انہیں سائبرونگ کی طرف سے بتایا گیا کہ موبائل میں کوئی غیررجسٹرڈ ایپ انسٹال کرنے کی وجہ سے ہیکرکو ان کے موبائل ڈیٹا تک رسائی ملی جس کی وجہ سے ایسا ہوا۔

احمد قریشی اور عائشہ عامر کی طرح کئی صحافی ایسے ہیں جو ان مسائل کا سامنا کرچکے ہیں۔ بعض صحافیوں کے وٹس ایپ تک ہیک کئے جاچکے ہیں۔ جبکہ ٹوئٹر اورفیس بک پر کسی معروف صحافی کے نام سے اکاونٹ بنانے کے واقعات تو عام ہیں۔ ٹوئٹرپر کسی معروف صحافی کے نام سے اکاونٹ بنانے کا بڑا مقصد زیادہ فالورزحاصل کرنا اورفیک یا مِس انفارمیشن پھیلانا ہوتا ہے جبکہ فیس بک پرلوگ زیادہ تر پیسوں کا فراڈ کرتے ہیں۔

لاہورکے ایک سینئر صحافی عبدالرحمن نے بتایا کہ کسی نے ان کے نام سے جعلی فیس بک اکاونٹ بنایا اورپھراس اکاونٹ سے ان کے اصل فیس بک پروفائل پر موجود افراد کو فرینڈ ریکویسٹ بھیج کر دوست بنایا اور ان دوستوں سے کسی بیماری اورایمرجنسی کا بہانہ بنا کرپیسے مانگے گئے۔ عبدالرحمن نے بتایا کہ ان کے چند دوستوں نے تو تصدیق کئے بغیرپیسے بھیج دیے تھے لیکن جب چار،پانچ دوستوں نے ان سے فون پر رابطہ کیا اور پوچھا کہ پیسوں کی اتنی ایمرجنسی میں کیا ضرورت پڑ گئی ہے تو تب انہیں معلوم ہوا کہ ان کا جعلی اکاونٹ بنا کر ان کے دوستوں سے پیسے مانگے گئے ہیں۔

ڈیجیٹل اِن -سکیورٹی کا شکارہونیوالوں کی تعداد میں تشویشناک اضافہ

پاکستان میں جس طرح صحافیوں کو جسمانی اورمعاشی سکیورٹی کے خطرات لاحق ہیں اسی طرح صحافیوں کے لئے ڈیجیٹل سکیورٹی کے مسائل بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ یہ افسوسناک ہے کہ میڈیا ہاؤسز کی اکثریت اپنے کارکنان کو ڈیجیٹل سکیورٹی اورپرائیویسی کے حوالے سے کوئی تربیت فراہم نہیں کرتی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ صحافیوں کی اکثریت اپنے ڈیٹا اورسوشل میڈیا اکاونٹس کو محفوظ رکھنے کے طریقوں سے واقف نہیں ہے۔

ایف آئی اے نے 21 ستمبر 2022 کو اس وقت کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن کے اجلاس میں پیش کی جانیوالی رپورٹ میں بتایا تھا کہ پاکستان میں سائبرکرائم کی شرح میں 83 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق سال 2021 میں آن لائن فراڈ، ہراسگی، دھمکیوں، آن لائن ڈیٹا کی چوری سمیت دیگر سائبرکرائم کے ایک لاکھ دوہزار 356 واقعات رپورٹ ہوئے تھے جن میں صحافیوں کی شکایات بھی شامل ہیں تاہم صحافیوں کی تعداد کا الگ سے کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آرایف) نے دسمبر 2017 میں ڈیجیٹل سکیورٹی کے حوالے سے ایک سروے کیاتھا جس کی رپورٹ 2018 میں جاری کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق 66 فیصد صحافیوں جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں انٹرنیٹ پر ڈیجیٹل سکیورٹی مسائل کاسامنا کرنا پڑا ہے ۔ جن میں اکاونٹ کا ہیک ہونا، آن لائن ڈیٹا کی چوری، آن لائن ہراسمنٹ، دھمکیاں، بلیک میلنگ سمیت دیگر مسائل شامل ہیں۔

غیرمحفوط ڈیجیٹل سکیورٹی کا شکار ہونیوالے 45.5 فیصد صحافیوں نے بتایا کہ آن لائن دھمکیوں اور ڈیٹا چوری ہونے کے بعد انہیں سیلف سنسرشپ اختیارکرناپڑی اور سوشل میڈیا پر ڈیٹاشیئرکرنے میں احتیاط برتنا شروع کردی تھی۔ 33.3 فیصد کے مطابق انہوں نے سوشل میڈیا کا استعمال کم کردیا جبکہ 15.2 فیصد کے مطابق انہوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ ہی غیرفعال کردیئے۔ 33.3 فیصد کے مطابق ان کے سوشل میڈیا اکاونٹس ہیک کئے گئے۔ 42.4 فیصد کو آن لائن دھمکیاں موصول ہوئیں۔ 9.1 فیصد کا آن لائن ڈیٹا چوری ہوا۔ 9.1 فیصد کے کمپیوٹر/لیپ ٹاپ کو ہیک کیا گیا۔ 15.2 فیصد کو بلیک میل کیا گیا جبکہ 45.5 فیصد کے مطابق وہ سائبرحملے کا شکار ہوئے تھے۔

ڈیجیٹل سکیورٹی مسائل کا شکار ہونیوالے 24.2 فیصد صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس معاملے کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ 36.4 فیصد کہتے ہیں کہ انہیں یہ معلوم نہیں کہ ایسی صورتحال میں کس ادارے کو اورکیسے رپورٹ کرنی ہے۔ 27.3 فیصد کے مطابق انہوں نے متعلقہ ادارے کو رپورٹ کیا۔ 18.2 فیصد کے مطابق ایف آئی اے کا سسٹم سست اوربیکار ہے۔ 12.1 فیصد نے بتایا کہ انہیں رپورٹ درج کروانے کے لئے کافی دور جاناپڑتا اورکافی وقت درکارتھا جبکہ 24.2 فیصد کاکہنا تھا کہ انہیں ہراساں کئے جانیوالوں کی طرف سے خطرہ تھا اس لئے انہوں نے کہیں بھی رپورٹ نہیں کیا ہے۔

ڈی آر ایف کے مطابق بعض اوقات سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی طرف سے بھی صحافیوں کے اکاؤنٹس بلاک کر دیئے جاتے ہیں جو مختلف وجوہات کی بنا پر ہو سکتے ہیں۔ بعض اوقات وہ ایسے موضوعات پر رپورٹنگ کر رہے ہوتے ہیں جو الفاظ/تقریر پر مشتمل ہوتے ہیں جو سوشل میڈیا کمپنی کی کمیونٹی گائیڈلائنز کے خلاف ہوتے ہیں اور ان کے اکاؤنٹس کو بلاک کر دیا جاتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ حکومت یا دیگر ادارے صحافیوں کے اکاونٹس بلاک کرنے کے لئے سوشل میڈیا کمپنی کو رپورٹ بھیجتے ہیں۔

معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی انتظامیہ نے بتایا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ صحافیوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہیک کیے جاتے ہیں اور وہ سائبر حملوں کا سب سے بڑا ہدف ہیں۔ بعض اوقات صرف ان کے کام میں خلل ڈالنے کے لیے اکاؤنٹس ہیک کیے جاتے ہیں جبکہ بعض مواقع پر ان کے ہیک کیے گئے اکاؤنٹس خاص طور پر معروف صحافیوں کے اکاونٹس کو جعلی خبریں پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کے اکاؤنٹس کو ہیکرز ان معلومات اور ذرائع کو لیک کرنے کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں جنہیں صحافی اپنی رپورٹنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ڈیجیٹل سکیورٹی کوکیسے محفوظ بنایاجائے؟

سائبرسکیورٹی کے ماہر عبدالقادر کہتے ہیں یہ افسوسناک ہے کہ پاکستان میں قومی سطح پر سائبر سکیورٹی رسپانس میکنزم موجود نہیں ہے۔ مالیاتی اداروں اور میڈیا ہاؤسز نے انفرادی طور پر اپنے ڈیٹا کو سائبرحملوں اور ہیکرز سے محفوظ رکھنے کے لئے مینکنزم بنارکھے ہیں لیکن انفرادی طور پر کوئی شخص اپنے آن لائن ڈیٹا کی حفاظت کیسے کر سکتا ہے اس حوالے سے قومی سطح پرایسا کوئی سسٹم موجود نہیں ہے۔

 البتہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی حکام کے مطابق قومی اور ریجنل سطح پر کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم تشکیل دی جارہی ہے جو سائبر سکیورٹی کے ماہرین پر مشتمل ہوگی اور ہیکرز کے حملے کی صورت میں فوری جوابی کارروائی کرے گی۔ سائبر ٹیم تمام سرکاری اور نجی اداروں کو ہر ممکن ٹیکنیکل سپورٹ بھی فراہم کرے گی۔

ڈی آرایف نے صحافیوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس کی سکیورٹی محفوظ بنانے کے لئے ٹوفیکٹرویری فکیشن آپشن استعمال کریں۔ مضبوط اورطویل پاسورڈ استعمال کریں اور اسے تبدیل کرتے رہیں۔ مختلف سوشل میڈیا اکاونٹس کے لئے مختلف پاسورڈ استعمال کریں اورسب سے بڑھ کرمشکوک لنکس اور عوامی وائی فائی نیٹ ورکس کے استعمال سے گریز کریں۔اسی طرح موبائل فون میں کبھی بھی کلون یا تبدیل شدہ ایپ استعمال نہ کریں کیونکہ ایسی موبائل ایپلی کیشنز آپ کو ایپلی کیشن کے پرو ورجن کی سہولیات مفت فراہم کرنے کا جھانسہ دیکر آپ کے موبائل کیمرہ، فون نمبرز ،موبائل گیلری اورلوکیشن تک رسائی مانگتی ہیں جسے آپ الاؤ کردیتے ہیں۔ صحافیوں کو چاہیے کہ اگروہ اپنے موبائل فون یا لیپ ٹاپ میں کروم براؤز استعمال کرتے ہیں تو اس کی پرائیویسی میں جاکر سائٹ سیٹنگ کی آپشن کاانتخاب کریں اور وہاں سے لوکیشن، کیمرہ اورمائیکروفون کی پرمیشنز کو آف کردیں۔

ڈیجیٹل سکیورٹی کے حوالے سے ٹریننگ کا فقدان

پاکستان میں صحافیوں کو ڈیجیٹل سکیورٹی اورپرائیویسی کو محفوظ بنانے کے لئے میڈیا کے اداروں کی طرف سے کوئی ٹریننگ نہیں دی جاتی تاہم صحافیوں کی تربیت کے لئے کام کرنیوالی چند ملکی اورغیرملکی این جی اوز ورکشاپس کے ذریعے صحافیوں کی ٹریننگ کرتی ہیں۔

لاہور سے تعلق رکھنے والی خاتون رپورٹر فریال اعظم نے بتایا کہ انہوں نے چند ماہ پہلے لاہور میں ڈیجیٹل سکیورٹی کے حوالے سے منعقدہ تین روزہ تربیتی ورکشاپ میں شرکت کی تھی ۔ اس ورکشاپ کا انعقاد وزارت اطلاعات و نشریات اور پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) کی طرف سے کیا گیا تھا۔ لاہور سمیت دیگرشہروں میں بھی ایسی ہی ورک شاپس منعقد ہوئیں جن میں ڈیجیٹل سکیورٹی سمیت دیگر اہم مضوعات بارے تربیت اور آگاہی فراہم کی گئی تھی۔ اسی طرح سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشیٹوز (سی پی ڈی آئی) نے یورپی یونین (ای یو) کے مالی تعاون سے صحافیوں کے لیے سیفٹی، ڈیجیٹل سکیورٹی اور سائیکو سوشل سپورٹ کے موضوع پر تربیتی ورکشاپ لاہور میں منعقد کی تھی جس میں صحافیوں کو عملی مشق کے ذریعے بتایا گیا کہ وہ کس طرح ڈیجیٹل سکیورٹی کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔

لاہورپریس کلب انتطامیہ اورپنجاب یونین آف جرنلسٹ کے مطابق لاہورمیں صحافیوں کی تربیت کے لئے مختلف این جی اوز اور اداروں کی معاونت سے ورکشاپس کی جاتی ہیں۔ پی یوجے کے سیکرٹری شاہدچوہدری نے بتایا کہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق صحافیوں کی صلاحتیں بڑھانے کے لئے مختلف موضوعات پر ورکشاپس کروائی گئی ہیں ان میں ڈیجیٹل سکیورٹی بھی شامل ہے ۔ چند ماہ پہلے لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں ایک این جی او کی معاونت سے ٹریننگ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ تین روزہ ٹریننگ ورکشاپ میں کم وبیش 50 صحافی شریک ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ٹریننگ لینے والوں میں زیادہ تعداد نوجوان صحافیوں کی تھی۔

سوشل میڈیا اکاونٹ ،آن لائن ڈیٹا ہیک کئے جانے کی شکایت کیسے کی جائے؟

واضع رہے کہ انٹرنیٹ پر ممنوعہ مواد کی اشاعت ،آن لائن بلیک میلنگ، ہراسمنٹ اور ڈیجیٹل سکیورٹی سے متعلق شکایات کے لئے وفاقی تحقیقاتی ادارے( ایف آئی اے) کا نیشنل ریسپانس سینٹر فار سائبر کرائم کام کررہا ہے۔ جعلی اکاؤنٹ کی شکایت سائبر کرائم سینٹر کو آن لائن بھی درج کروائی جا سکتی ہے اس کے علاوہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم یعنی فیس بک، ٹوئٹر ،گوگل کوبھی آسان طریقے سے شکایت درج کروائی جاسکتی ہے۔ علاوہ ازیں سوشل ویب سائٹس پر جعلی پروفائل کے خلاف وفاقی وزارت داخلہ کو بھی شکایت درج کروائی جا سکتی ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے بھی گستاخانہ مواد کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے شکایت درج کروانے کی سہولت متعارف کروائی ہے۔ 

ایف آئی اے سائبرکرائم ونگ کو ہیلپ لائن 9911 پرکال کرنے کے علاوہ ای میل پرشکایت درج کروائی جاسکتی ہے جبکہ ایف آئی اے اور وزارت داخلہ کی آفیشل ویب سائٹس پر بھی شکایت درج کروانے کا پورٹل موجود ہے۔ اسی طرح فیس بک،ٹوئٹر صارفین کے پاس بھی شکایت درج کروانے کی سہولت ہے۔ جس اکاونٹ سے متعلق شکایات درج کروانی ہو اس کے پروفائل کے ساتھ ہی رپورٹ کی آپشن موجود ہوتی ہے۔ اس آپشن کا انتخاب کرکے اس اکاونٹ، ویب سائٹ سے متعلق رپورٹ دی جاسکتی ہے۔ اس کے لئے فیس بک، ٹوئٹر انتظامیہ کو شکایت کنندہ اپنی تفصیلات فراہم کرے گا اور جس اکاونٹ /ویب سائٹ بارے شکایات ہے اس سے متعلق بتائے گا۔ یہ ادارے تصدیقی عمل کے بعد چند دنوں میں ہی درخواست پرکارروائی شروع کردیتے ہیں۔

آصف محمود براڈکاسٹ جرنلسٹ اور فری لانسر ہیں۔ وہ ایکسپریس نیوز کے ساتھ بطور رپورٹر وابستہ ہیں۔