Get Alerts

گوادر یونیورسٹی میڈ اِن پنجاب

سی پیک کے بعد گوادر میں پاک چائنا سپر سٹور، پاک چائنا سکول وغیرہ وغیرہ بنے ہیں۔ اب لاہور میں ایک یونیورسٹی کو پاک چائنا و گوادر کے نام سے بنایا جا رہا ہے۔ چین کا نام بہت زرخیز ہے اسی لیے ہر جگہ دستیاب ہے تاہم گوادر بھی اب لاہور میں دستیاب ہوگا۔ چین غالباً بھولا نہیں ہوگا کہ پاک چائنا گوادر یونیورسٹی سے دھوکہ کھائے البتہ بلوچ تو کھاتا ہی آ رہا ہے۔

گوادر یونیورسٹی میڈ اِن پنجاب

مجھے کوئی تعجب نہیں کہ لاہور میں گوادر کے نام سے جامعہ بنانے کی منظوری پاکستان کی قومی اسمبلی کی جانب سے دی گئی ہے اور متفقہ رائے سے منظور ہوئی ہے۔

لاہور میں جامعہ سے اگر یہ گلہ بن جائے کہ نام کیونکر گوادر کا استعمال کیا گیا ہے تو یہ گلا کرتے کرتے ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ لاہور کو گیس فراہم کرنے والا شہر 'سوئی' بھی میری زمین ہے لیکن اس کی گیس اور نام لاہور میں بلاتعطل دستیاب ہے۔ سوئی بھی صدیوں سے اپنی زمین کی معدنیات کو کہیں اور فراہم کر رہا ہے۔ اگر اب کی بار گوادر بھی اپنے ساحل کی بدولت پنجاب کو سروسز دے گا تو اس میں برائی کیا ہے؟

اس لوٹ کھسوٹ میں کریڈٹ والے صاحبان سی پیک کو کہاں کہاں کس کی سفارتکاری قرار نہ دیتے آئے ہیں۔ اگر سی پیک کی سرمایہ کاری اتنی پرانی ہے تو گوادر کو چیخ و پکار کے ساتھ ہی سہی ایک عدد یونیورسٹی حال ہی میں نصیب تو ہوئی ناں۔

سی پیک کے بعد گوادر میں پاک چائنا سپر سٹور، پاک چائنا سکول وغیرہ وغیرہ بنے ہیں۔ اب لاہور میں ایک یونیورسٹی کو پاک چائنا و گوادر کے نام سے بنایا جا رہا ہے۔ چین کا نام بہت زرخیز ہے اسی لیے ہر جگہ دستیاب ہے تاہم گوادر بھی اب لاہور میں دستیاب ہوگا۔ چین غالباً بھولا نہیں ہوگا کہ پاک چائنا گوادر یونیورسٹی سے دھوکہ کھائے البتہ بلوچ تو کھاتا ہی آ رہا ہے۔

بلوچستان کا پنجاب سے مقابلہ و موازنہ بنتا ہی نہیں ہے۔ پنجاب جو حکمران ہے اور بلوچستان جو محکوم ہے۔ حاکم و محکوم کی تاریخ میں شاید مقابلہ دکھانے کے لئے کہیں لکھا جائے البتہ ارتقا و ترقی کو بھول جانا بہتر ہوگا۔

پنجاب کو 25 نئی جامعات نصیب ہوئی ہیں۔ اس کے مقابلے میں بلوچستان کی جامعات اساتذہ کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے سال میں دو بار بند ہوتی ہیں۔ جامعات میں چیک پوسٹ، طلبہ کی ہراسگی اور تشدد کے واقعات کو الگ سے کاؤنٹ کیا جانا چاہئیے۔

رضا ربانی صاحب کبھی کبھار جوش میں آتے ہیں تو لب کشائی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بلوچستان کسی کی نوآبادیات نہیں۔ لیکن پتہ نہیں رضا صاحب زمینی حقائق کو بھول کیوں جاتے ہیں کہ لوٹ کھسوٹ، تشدد، انسانی حقوق کی پامالی، آزادی رائے پر قدغن کیونکر نوآبادیاتی پالیسیز میں شمار نہیں کیے جاتے؟

اب چونکہ سیندک کا سونا وہاں تک نہیں پہنچتا، سوئی کی گیس سوئی تک آتے آتے دم توڑ جاتی ہے، گوادر کی بندرگاہ بلوچ معاش کی استحصال بن چکی ہے تو اسی اثنا میں انہی ساحل و وسائل کو لاہور، پنڈی، سیالکوٹ اور گوجرانوالا کا نام دے کر جغرافیائی حدود کا تعین کیوں نہیں کیا جاتا؟

کوئی ناراض نہ ہو البتہ باقی ماندہ مناسب آپشن اس سے بہتر کوئی ہوگا ہی نہیں۔ شاید نام تبدیل کرنے کے بعد بلوچ گلہ کرنا ہی بند کر دے۔

اس میں ایک عدد مسئلہ درپیش ہو سکتا ہے اور وہ ہے جبری گمشدگی۔ شاید میڈیا لاہور کو جبری گمشدگی میں دل دکھنے کی وجہ رپورٹ نہ کرے۔ کیونکہ عمران ریاض کے وکیل پہلے ہی اپیل کر چکے ہیں کہ جبری گمشدگی بلوچستان تک محدود کی جائے اور لاہور سے ان سبھی معاملات کو دور رکھا جائے۔

سنا ہے گوادر ایئرپورٹ بھی فیروز خان نون سے منسوب ہونے والا ہے۔ شاید ایک وجہ یہ ہے کہ گوادر کو عمان سے فیروز نون نے خریدا تھا۔ اگر جواز یہی ہے تو میر حمل کلمتی کا نام سرفہرست ہونا چاہئیے۔ انہوں نے سولہویں صدی میں گوادر کو پرتگیزی قبضہ گیر سے بچا کر شہادت نوش کی تھی۔

اب اگر کوئی کہے کہ گوادر کا پیارا نام لاہور میں کیوں منع ہے تو جناب عرض ہے کہ گوادر کا نام گوادر میں تو منع نہ کیا جائے۔ اگر لاہور میں گوادر یونیورسٹی بن سکتی ہے تو گوادر ایئرپورٹ گوادر یا گوادر کے کسی اپنے کے نام پر کیوں نہیں رکھا جا سکتا؟

اب چونکہ بلوچ معدنیات کے ساتھ بلوچ زمین کے نام بھی منتقل کیے جا رہے ہیں تو رضا ربانی صاحب بلوچستان کو کِنگ کی کالونی ہی کہیں تو بات میں وزن پیدا ہو سکتا ہے۔

یوسف بلوچ کالم نگار ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔