نوآبادیاتی دور کے ناکارہ نظام انصاف کی ازسر نو تشکیل ناگزیر ہو چکی

2009 میں عدلیہ کی بحالی کے لیے چلائی جانے والی تحریک کے موقع پر یہ امید پیدا ہو چلی تھی کہ اب عدلیہ میں بنیادی ادارہ جاتی اصلاحات دیکھنے کو ملیں گی، لیکن بدقسمتی سے معاملات میں پچھلے 15 برسوں میں پہلے سے بھی زیادہ بگاڑ پیدا ہو گیا ہے۔

نوآبادیاتی دور کے ناکارہ نظام انصاف کی ازسر نو تشکیل ناگزیر ہو چکی

ہم اعلیٰ عدلیہ کے ایوانوں سے لگ بھگ روزانہ کی بنیاد پر سنتے ہیں کہ ریاست کے تمام معاملات کو آئین پاکستان کے مطابق چلایا جانا چاہیے۔ یقیناً اس ضمن میں دو آرا ہو ہی نہیں سکتیں، لیکن کہنا پڑتا ہے کہ زوال پذیر نظام عدل کو بنیادی ادارہ جاتی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے، تاکہ ماتحت عدالتوں میں زیرِ التوا لاکھوں مقدمات کا فیصلہ ہونے میں انتہائی تاخیر کی روایت کو ختم کرتے ہوئے سائلین کو فوری انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔

2009 میں عدلیہ کی بحالی کے لیے چلائی جانے والی تحریک کے موقع پر یہ امید پیدا ہو چلی تھی کہ اب عدلیہ میں بنیادی ادارہ جاتی اصلاحات دیکھنے کو ملیں گی، لیکن بدقسمتی سے معاملات میں پچھلے 15 برسوں میں پہلے سے بھی زیادہ بگاڑ پیدا ہو گیا ہے۔ اب بھی ملک بھر کے عدالتی نظام میں لاکھوں مقدمات زیرِ التوا ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پورا نظام جمود کا شکار ہے اور مسلسل زوال پذیر ہے۔ یہ زوال ہمہ جہت ہے۔ پہلے تو صرف ماتحت عدالتوں میں معیار کے فقدان کا ذکر ہوتا تھا، مگر اب تو ہائی کورٹس میں بھی یہی حال ہے۔ مقدمات میں پیش ہونے والے نوجوان وکلا کو پیروی کے طریقہ کار سے آگاہی ہے اور نا ہی دلیل سے واقفیت۔ یہ بھی افسوس کا مقام ہے کہ عدالت کے فیصلوں کا معیار بھی گر رہا ہے۔ عدالت کی مناسب طور پر معاونت نہیں ہو رہی، تو ہر ایک کو ہائی کورٹ کا لائسنس کیسے مل رہا ہے؟ پاکستان بار کونسل اپنا قانونی فریضہ کیوں انجام نہیں دے رہی؟ یہ بار اور بنچ دونوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

آئینِ پاکستان بلا امتیاز تمام شہریوں کو انصاف تک رسائی کا حق دیتا ہے۔ اس حق کو غیر جانبدار عدالتوں اور ٹربیونلز میں مقدمات کے فوری حل کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔ انصاف صرف اُسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب سائلین کے مقدمات کا ایک محدود ٹائم فریم میں فیصلہ سامنے آ سکے۔ انصاف میں تاخیر بذاتِ خود انصاف کے خون کے مترادف ہے۔ اس عمل کے لیے عدلیہ کو ناصرف آزاد بلکہ مؤثر اور اہل بھی ہونا چاہیے تاکہ عوام کو انصاف ہوتا ہوا بھی دکھائی دے۔
معاشرے میں انصاف کی فراہمی اور انتظامی امور کی انجام دہی کو سب سے زیادہ ترجیح حاصل ہونی چاہیے۔

ہمارے عدالتی نظام کو ان امور کی انجام دہی میں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ عدالتوں میں لاکھوں کیسز التوا کا شکار رہتے ہیں اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مقدمات پر کثیر رقم بھی خرچ ہوتی ہے۔ قابل وکیل ہمیشہ ہی مہنگے ہوتے ہیں۔ عدالتوں میں تاخیر کی وجہ سے بہت سی سماجی اور معاشی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ ان معاملات کو درست کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش دیکھنے میں نہیں آئی۔

اب تو یہ عالم ہے کہ عدالتوں میں جج حضرات کی تعداد میں اضافہ کرنے سے بھی مسائل حل نہیں ہو پا رہے کیونکہ ہمارے سماج اور طرز حکومت میں سماجی اور معاشی انصاف کے خدوخال نہایت مدھم ہو چکے ہیں۔ نظام عدل و انصاف میں اصلاحات لانے کا عمل دیگر امور سے الگ نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے ریاستی اداروں، جو نوآبادیاتی دور کی نشانیاں ہیں، کی ازسر نو تعمیر ضروری ہے۔ یہ گلے سڑے ادارے اب ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے بھی ہم ٹس سے مس نہ ہوئے اور اپنے ناکارہ اداروں کے خدوخال تبدیل کرنے کی کوشش نہ کی۔

عدلیہ میں بہتری کے لیے بہت سی تجاویز موجود ہیں۔ اسے درپیش سب سے بڑا مسئلہ سہولیات کی کمی کا ہے۔ اس کے پاس جدید انفراسٹرکچر موجود نہیں، جس کی وجہ سے کیسز تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ماہرین نے اس صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے مسائل کا حل تجویز کیا ہے، لیکن اس کے نفاذ کے لیے سنجیدہ کوشش کا فقدان اصل مسئلہ ہے۔ اس بات پر کسی بحث کی ضرورت نہیں کہ کسی بھی ریاست میں عدلیہ قانون پر عمل کرتے ہوئے لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے اور معاشرے میں انصاف کی بالادستی کو یقینی بناتی ہے۔

قانون کی بالادستی تین اصولوں کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ پہلا اصول یہ ہے کہ گورنمنٹ کے افسران ہوں یا پرائیویٹ ادارے، قانون سب سے بالاتر اور کسی سیاسی دباؤ کے اثر سے آزاد ہونا چاہیے۔ دوسرا اصول مثبت قوانین کا قیام اور اطلاق ہے جو کہ بلند معیار کی علامت ہوں۔ تیسرا اصول یہ ہے کہ ریاست اور عام آدمی کے مابین تعلق کو قانون کی مدد سے منظم کیا جائے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

پاکستان میں ہم جس چیز کی سب سے زیادہ کمی محسوس کرتے ہیں وہ قانون کی حکمرانی ہے۔ ملک کے سب سے گنجان آباد صوبے کی ہائی کورٹ کی 150ویں سالگرہ مناتے ہوئے بھی اس المیے کا ذکر سب سے زیادہ بار کیا گیا تھا۔ پاکستان میں صحیح معنوں میں قانون کا نظام اور اس کی فراہمی ابھی بہت دور ہے۔ انصاف کے مہنگے اور صبر آزما نظام تک عوام کی رسائی بہت مشکل ہے۔ یہ مناسب وقت ہے کہ ہم بامعنی قانونی اصلاحات کے لیے آواز بلند کریں جو انصاف، ترقی، جمہوریت اور قانون کی بالادستی کے لیے بہت ضروری ہے۔

پچھلے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے عوامی مفاد میں دائر کردہ ایک مقدمے کی سماعت سے انکار کر دیا تھا۔ اس مقدمے میں درخواست کی گئی تھی کہ چونکہ پاکستان کئی ٹریلین روپوں کا مقروض ہے اور اس کی وجہ سے لاکھوں افراد کو صحت اور تعلیم سمیت زندگی کی بنیادی سہولیات میسر نہیں، اس لیے ایوانِ صدر، وزیرِ اعظم ہاؤس، گورنر ہاؤسز پر ہونے والے بھاری اخراجات اور سرکاری افسران اور عوامی نمائندوں کے شاہانہ طرزِ زندگی اور اُنہیں ملنے والی مراعات پر پابندی لگائی جائے کیونکہ یہ ناصرف رسولِ اکرمﷺ کی سادگی کی تلقین سے روگردانی کے مترادف ہے بلکہ آئین کے آرٹیکلز 2 اے، 3، 4، 9، 14 اور 25 کی روح کے بھی خلاف ہے۔

سپریم کورٹ نے 6 صفحات پر مشتمل حکم نامے میں تسلیم کیا ہے کہ اگرچہ عوامی وسائل عوامی عہدیداروں کے پاس امانت کے طور پر ہوتے ہیں لیکن یہ معاملہ چونکہ حکومت کی پالیسی اور سیاسی امور کا ہے، اس لیے یہ اس ( سپریم کورٹ) کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔

سپریم کورٹ کے حالیہ آرڈر سے قطع نظر، عمومی تاثر ہے کہ ہمارا قانونی نظام دولت مند اور طاقتور افراد کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ یہ بات بھی معاشرے میں سنائی دیتی ہے کہ یہاں 'انصاف بکتا ہے'۔ اس لیے 'عدلیہ کی آزادی' اور 'انصاف سب کے لیے' جیسے نعرے صحرا میں ریت چھاننے کے مترادف ثابت ہوتے ہیں۔

قومی جوڈیشل پالیسی 2009 جس کا بہت زیادہ چرچا ہوا، بھی معاملات کو سدھارنے میں ناکام ثابت ہوئی۔ بلکہ کہنا پڑتا ہے کہ اس پالیسی کے اعلان کے بعد ماتحت عدلیہ میں التوا کے کیسز میں مزید اضافہ ہوا۔ یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ معاشرے کے کمزور اور نادار افراد کو انصاف میسر نہیں۔ یہ وہ افراد ہیں جنہیں انصاف کی فوری ضرورت ہے کیونکہ یہ سرکاری افسران کے جبر اور نجی پارٹیوں کی چکما بازی کا شکار ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات سرکاری ادارے اور نجی کمپنیاں مل کر عوام کو لوٹتے ہیں اور ان کی کہیں بھی دادرسی نہیں ہوتی۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں وکلا کی فیس بہت زیادہ ہے۔ عام آدمی، خاص طور پر تنخواہ دار طبقے کو انصاف کے حصول کی خاطر وکیل کرنے کے لیے اپنے سب اثاثے فروخت کرنے پڑتے ہیں۔ اس کے باوجود اُسے مقدمے کے فیصلے کے لیے برس ہا برس انتظار کی سولی پر لٹکنا پڑتا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ سے یہ معاملات پوشیدہ نہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی عوام کی حالت بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ نہیں، صرف بیان بازی سے ہی کام چلایا جا رہا ہے۔

اس استحصالی نظام میں فائدہ اٹھانے والے حضرات کبھی بھی عام آدمی کو فائدہ نہیں پہنچنے دیں گے۔ وہ چاہتے ہیں کہ صورتِ حال جوں کی توں رہے۔ دراصل تمام خرابیوں کا باعث طاقت کا موجودہ ڈھانچہ ہے جو بنیادی طور پر عوام کے خلاف ہے۔ اس ڈھانچے میں عدلیہ بھی آتی ہے اور مقننہ بھی۔ بدقسمتی سے کوئی سیاسی جماعت اس ڈھانچے کو تبدیل کرتے ہوئے عوام کو فائدہ پہنچانے کا ایجنڈا نہیں رکھتی۔ دوسری طرف سول و خاکی بیوروکریسی، سیاست دانوں، کاروباری افراد اور جاگیرداروں پر مشتمل اشرافیہ اپنے باہمی مفاد کے پرچم کے سائے تلے ایک ہے۔ انہوں نے مختلف ناموں اور بہانوں سے عوام سے پہلے ووٹ اور پھر جبری ٹیکس لینا ہے اور اس سے اپنی عیش و عشرت کا سامان کرنا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے ریاستی ڈھانچے کو جمہوری اقدار (جو انصاف کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہیں) میں ڈھالنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ چونکہ حکمران اشرافیہ عوام کی محنت سے کمائی ہوئی دولت پر عیش کرنے کی عادی ہو چکی ہے، اس لیے وہ پولیس فورس، عدلیہ اور قانون سازی کے ذریعے اس اجارہ داری کو ختم کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ عوام کو طاقت اور اختیارات کی منتقلی اور ان کے معاشی مفاد کا تحفظ ہی حقیقی جمہوریت ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں اس کا مطلب حکمران طبقے کی موت ہو گا۔ اس لیے یہاں مروجہ شخصیت پرست سیاسی نظام میں عوامی مفاد کی گنجائش نہیں نکلتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب عوامی مفاد کی بات ہو تو تمام اشرافیہ یک سو ہو کر اس کی مخالفت اور اپنے مفاد کا تحفظ کرتی ہے۔

جمہوریت کے لیے احتساب انتہائی ناگزیر ہے اور اس کے بغیر جمہوریت کا کوئی تصور نہیں۔ یہ احتسابی عمل جج حضرات سے شروع ہونا چاہیے کیونکہ اگر وہ بے داغ کردار کے مالک ہوں گے تو ہی دیگر اداروں کا احتساب ممکن ہو گا۔ کردار کا سچا شخص ہی اندرونی اور بیرونی دباؤ برداشت کر سکتا ہے۔ احتساب ایسا ہو کہ انصاف ناصرف کیا جائے بلکہ ہوتا ہوا دکھائی بھی دے، لیکن ایسا صرف زبانی جمع خرچ سے نہیں ہو گا۔

ریاست کی تقویت کے لیے ضروری ہے کہ تمام اداروں کا احتساب ہو۔ اس مقصد کے لیے دباؤ کی ضرورت ہے۔ دباؤ سے مراد گن پوائنٹ پر پڑنے والا دباؤ نہیں بلکہ سماجی پریشر گروپس، جیسا کہ سول سوسائٹی اور میڈیا (جسے بذات خود خود احتسابی کے عمل سے گزرنے کی ضرورت ہے) کو سامنے آ کر پاکستان میں دستور پاکستان کی شق 19 اے کے تحت عوام کو معلومات کے حق تک رسائی دینے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔

عوام کو معلومات تک رسائی بھی احتسابی عمل کا ایک حصہ ہے۔ یہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ وہ سرکاری اور عوامی عہدے رکھنے والے افراد کے اثاثوں کے بارے میں جان سکے۔ آئین کے ذریعے دیے گئے اس حق کے راستے میں عدالت بھی رکاوٹ نہیں ڈال سکتی۔ اگر ایسا ہو جائے تو عوام اپنے حکمرانوں اور ان کے معاونین کے بارے میں بہت کچھ جان سکتے ہیں۔ جمہوریت کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ بظاہر اور سرسری تبدیلیوں کی بجائے پورے ڈھانچے کو بدلا جائے۔

جمہوریت میں سب سے زیادہ طاقت عوام کے پاس ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے تا کہ حکمران خود کو سفید و سیاہ کے مالک نہیں بلکہ دیے گئے اختیار کے امانت دار سمجھیں۔ چونکہ انصاف کی فراہمی احتساب کی بنیادی ضرورت ہے، اس لیے ریاست اور شہریوں کے درمیان غیر ضروری رکاوٹیں کھڑی کرنے والے قوانین کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ اس وقت نہایت شرمناک بات یہ ہے کہ ریاست خود عوام کے حقوق کو پامال کرتے ہوئے شہریوں کو عدالتوں میں گھسیٹ لیتی ہے، لیکن خود کو عوام کے سامنے احتساب کے لیے پیش کرنے پر تیار نہیں ہوتی۔

مضمون نگار وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ دونوں متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور LUMS یونیورسٹی کی Visiting Faculty کا حصہ ہیں۔