انصاف کی فراہمی میں تاخیر انصاف فراہم کرنے سے انکار کے مترادف ہوا کرتی ہے

انصاف کی فراہمی میں تاخیر انصاف فراہم کرنے سے انکار کے مترادف ہوا کرتی ہے
آسیہ نورین جسے آسیہ بی بی کے نام سے جانا جاتا ہے 2009 میں اپنے ساتھ کام کرنے والی ایک خاتون کے برتن میں پانی پی بیٹھی۔ اس کی اس حرکت کی وجہ سے اس کی ساتھی خاتون مشتعل ہو گئی کیونکہ اس کا خیال تھا کہ آسیہ نے مسیحی ہونے کے باوجود اس کے برتن سے پانی پی کر اس کے مذہبی جذبات جو مشتعل کر کے توہین مذہب کا ارتکاب کیا ہے۔ ہمارے یہاں اکثر مسلمان مسیحی افراد کو اچھوت تصور کرتے ہوئے مسییحیوں کے اپنے برتنوں کو ہاتھ  لگانے کو ناپاکی تصور کرتے ہیں۔ آسیہ اور اس خاتون کے مابین اس بات کو لے کر جھگڑا بڑھا اور بات مذہبی جذبات مشتعل کرنے سے بڑھ کر توہین رسالت  کے الزام تک جا پہنچی۔ آسیہ بی بی پر الزام دھر دیا گیا کہ اس نے حضرت محمدﷺ کے بارے میں توہین آمیز کلمات کہے ہیں۔ نتیجتاً آسیہ بی بی کے گھر پر مشتعل ہجوم نے حملہ کر دیا اور اسے اس کے خاندان سمیت تشدد کا نشانہ بنایا۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر آسیہ بی بی اور اس کے خاندان کو مشتعل بلوائیوں سے بچایا اور آسیہ بی بی کو گرفتار کر لیا۔ پاکستان میں تو پڑھے لکھے خاندانوں میں مسیحی افراد کا مسلمانوں کے برتنوں کو استعمال کرنا یا کھانوں کو چھونا معیوب سمجھا جاتا ہے، یہ تو پھر ان پڑھ محنت کش تھے اور مسیحی افراد کو لے کر ان کا رویہ ظاہری بات ہے کہ زیادہ متعصبانہ تھا۔

آپ پوچھتے ہیں سب جھوٹ کیوں بولیں گے؟ بتائیے خالد چشتی نے جھوٹ کیوں بولا؟

اس بات کی حقیقت کو جاننے کیلئے کہ انہوں نے جھوٹ کیوں بولا، ہمیں اس واقعے کے تناظر میں موجود حقائق کا ادراک کرنا ہو گا۔ عدالت میں اس بات کو اجاگر کیا گیا کہ یہ توہین کا الزام پرانی دشمنی کا حساب چکتا کرنے کیلئے لگایا گیا تھا۔ آسیہ بی بی کے مجوزہ طور پر کہے گئے توہین آمیز بیان کے بارے میں بھی کئی تضادات موجود تھے۔ اور پھر ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا کہ کسی غیر مسلم پر توہین کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہو۔ حافظ محمد خالد چشتی نامی ایک مولوی نے اس سے  کچھ عرصہ قبل ہی رمشہ مسیح نامی ایک 14 سالہ بچی کے بارے میں دروغ گوئی سے کام لیا تھا۔ اس نے رمشہ مسیح پر قرآن کریم کے صفحات پھاڑنے اور انہیں جلانے کا جھوٹا الزام لگایا، جبکہ حقیقتاً خود حافظ محمد خالد نے ہی قرآن کے صفحات کو نذر آتش کیا تھا اور ان اوراق کو اپنے الزام کے ثبوت کے طور پر پیش کیا تاکہ آس پاس بسنے والے مسیحیوں میں خوف و دہشت پھیل جائے اور وہ سب اس علاقے کو چھوڑ کر چلے جائیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس مولوی نے خود قرآنی صفحات کی بے حرمتی کی اور حقیقتاً توہین مذہب کا مرتکب ہوا۔



رمشہ کو جیل بھیج دیا گیا لیکن عدالت میں اس کی بے گناہی ثابت ہونے کے بعد اسے رہا کر دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد رمشہ مسیح اور اس کے خاندان کو انسانی ہمدردی کی بنا پر کینیڈا میں بسنے کا موقع مل گیا، کیونکہ عدالت سے بےگناہی ثابت ہونے کے باوجود رمشہ کی جان کو پاکستان میں خطرات لاحق تھے۔ اس کے برعکس جس مولوی نے دانستہ طور پر جھوٹ بول کر اس کم سن بچی کو قتل کروانے کی کوشش کی وہ آج بھی "باعزت " زندگی بسر کر رہا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس بات میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ مسلمان توہین مذہب کے حوالے سے کبھی جھوٹ نہیں بولے گا۔ ایک جھوٹا ہر حال میں جھوٹ ہی بولتا ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ ویسے بھی کوئی بھی شخص اتنا بے وقوف نہیں ہو سکتا کہ وہ یہ جانتے ہوئے کہ توہین مذہب کی سزا موت ہے، کھلے عام اس جرم کا ارتکاب کرے۔ اور اگر ایسا نہ بھی ہو اس جرم کے حوالے سے محض ایک افواہ ہی توہین کا الزام لگنے والے کو مشتعل ہجوم کے ہاتھوں کچلوائے جانے کیلئے کافی ہوتی ہے۔ مشعال خان کا واقعہ اس ضمن میں ایک مثال ہے۔



زندگی کے آٹھ سال سلاخوں کے پیچھے ایک ناکردہ جرم کی پاداش میں رائیگاں

آسیہ بی بی کے مدعے کی طرف واپس آتے ہیں۔ اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندگی بسر کرتے آٹھ برس بیت چکے ہیں۔ اسے زیادہ تر آٹھ بائی دس کی ایک کوٹھڑی میں قید تنہائی میں رکھا جاتا ہے۔ آسیہ بی بی کو جیل کے باقی قیدیوں سے بالکل الگ تھلگ رکھا جاتا ہے کیونکہ کوئی بھی قیدی مشتعل ہو کر اس کی جان لینے کی کوشش کر سکتا ہے۔ حتیٰ کہ آسیہ بی بی اپنے لئے کھانا بھی خود ہی بناتی ہے تاکہ اسے کوئی کھانے میں زہر ملا کر نہ دے سکے۔ اس بات کے دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں کہ جیل اہلکاروں کی جانب سے اسے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ وہ اب انتہائی کمزور اور لاغر ہو چکی ہے۔ ایک بے گناہ عورت کا آٹھ سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہ کر یہ تمام مظالم برداشت کرنا انتہائی شدید زیادتی اور ظلم ہے۔ ایک نئی حکومت کا برسر اقتدار آنا جہاں کئی چیلنجز لے کر آتا ہے وہیں اس عمل سے کئی امیدیں بھی جنم لیتی ہیں۔ میں ہماری وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری صاحبہ سے درخواست کرتی ہوں کہ اس معاملے پر نگاہ ڈالیں اور آسیہ بی بی کو انصاف دلوائیں۔ اس نے بہت ظلم سہا ہے اور وہ بھی ایک ایسے گناہ کی پاداش میں، جو اس سے کبھی سرزد ہوا ہی نہیں تھا۔ انصاف کی فراہمی میں تاخیر انصاف فراہم کرنے سے انکار کے مترادف ہوا کرتی ہے۔

مصنفہ برابر حقوق کی داعی اور ملک کے مؤقر جریدوں کے لئے لکھتی رہتی ہیں۔