وکلا ایک مرتبہ عدلیہ کی آزادی کے لیے تحریک چلا کر سڑکوں پر خوار ہو چکے ہیں، اس تحریک کا فائدہ عدلیہ کو بطور ادارہ نہیں ہوا تھا بلکہ کچھ خاص لوگوں نے اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ وکلا کو اس کے نتیجے میں بہت مایوسی ہوئی تھی۔ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے اس لیے وکلا کسی سیاسی جماعت کی کال پر کسی نئی تحریک کا حصہ نہیں بنیں گے۔ یہ کہنا ہے قانون دان احمد حسن شاہ کا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبرسےآگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تمام ججز اس معاملے پر متفق ہوں گے کہ مداخلت نہیں ہونی چاہیے تو بظاہر یہ اوپن اینڈ شٹ کیس ہے کیونکہ کوئی بھی عدلیہ میں مداخلت کی حمایت نہیں کر سکتا مگر سپریم کورٹ شواہد دیکھے گی اور شواہد کی بنیاد پر کوئی فیصلہ دے گی۔ اس مرتبہ عدالت کو کوئی نہ کوئی واضح راستہ اختیار کرنا ہو گا۔ ہو سکتا ہے سپریم کورٹ کچھ لوگوں کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کروائے، اور جہاں پرچے کٹ سکتے ہیں وہاں پرچے کٹوائے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
ان کا کہنا تھا ججز خط کے حوالے سے عوام کے ذہنوں میں یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ ججز نے جس پریشر کی بات کی ہے وہ مبنی بر حقیقت ہے۔ دوسری طرف پچھلے دنوں ذوالفقار بھٹو کی پھانسی سے متعلق ریفرنس پر بھی جس طرح سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا اس سے بھی عدلیہ پر دباؤ کے تاثر کو تقویت ملی کہ اسی پریشر کے تحت فیصلے دلوائے جاتے رہے ہیں۔
میزبان رضا رومی تھے۔ پروگرام 'خبرسےآگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔