وزیراعظم تاریخ رقم کرتے ہوئے کہیں خود تاریخ کا حصہ نہ بن جائیں

وزیراعظم تاریخ رقم کرتے ہوئے کہیں خود تاریخ کا حصہ نہ بن جائیں
دنیا میں کرونا وائرس نے تباہی مچا رکھی ہے لیکن مملکت پاکستان میں چینی سکینڈل کی ابتدائی رپورٹ لیک یا پبلک ہونے پر کہرام برپا ہے۔ حکومتی بیانیہ ہے کہ تاریخ میں پہلی دفعہ کسی حکومت نے اپنے دور میں ہونے والے سکینڈل کی نہ صرف انکوائری کی بلکہ رپورٹ بھی منظر عام پر لائی۔

روداد کچھ یوں ہے کہ حکومت نے چینی پر شوگر ملز کو تین ارب سبسڈی دی جو تمام حکومتیں دیتی ہیں، اور اس سے فائدہ اٹھانے والوں میں حکومت کے کرتا دھرتا خود شامل تھے۔ ابتدائی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تمام مراحل تو قانون کے مطابق ہوئے۔ شوگر ایڈوائزری کمیٹی کی اجازت ہو، ای سی سی کی سفارشات ہوں (جس کی سربراہی وزیر خزانہ کرتے ہیں) اور پھر کابینہ سے منظوری لینا (جس کی سربراہی وزیراعظم خود کرتے ہیں)۔

سوال یہ ہے کہ پھر معاملہ کیا ہے؟

اصل میں حکومت میں کچھ ایسے مشیران شامل ہیں جن کی تلواریں کمان سے باہر ہوتی ہیں۔ تحریک انصاف جو کہ کرپشن فری پاکستان بنانے کے مشن پر نکلی تھی اپنے خلاف سکینڈل آنے پر ہواس باختہ ہے۔ اپوزیشن کا پریشر اور پھر میڈیا ان سب نے وزیراعظم کو مجبور کیا کہ تحقیقات کروائی جائیں، جس کی سربراہی پانامہ سکینڈل کی تحقیقات کرنے والے واجد ضیا کو دی گئی۔

رپورٹ کا مرکزی کردار تحریک انصاف کے سابق جنرل سیکرٹری جہانگیر خان ترین ہیں اور واویلا بھی اس بات پر ہے۔ اپوزیشن والے جہانگیر ترین کو وزیراعظم کی اے ٹی ایم مشین کہتے ہیں، پارٹی کی تنظیم سازی ہو یا الیکشن 2018 جہانگیر ترین کا کردار اہم رہا ہے۔ حکومت کی تشکیل کے بعد نااہل ہونے کے باوجود زرعی شعبے کا انچارج بنایا گیا۔ رپورٹ آنے کے بعد حکومتی ترجمان شہباز گل کے مطابق انہیں اس عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ دوسری جانب جہانگیر ترین نے  کسی بھی ایسے عہدے پر ہونے کا انکار کیا ہے۔

رپورٹ میں وفاقی وزیر خسرو بختیار اور دوسرے لوگوں کا نام بھی شامل ہیں لیکن تنقید کا نشانہ جہانگیر ترین کیوں ہیں؟

رؤف کلاسرا نے اپنے حالیہ کالم میں لکھا ہے کہ سمجھ نہیں آ رہی، رویا جائے یا ہنسا جائے۔ جس طرح حکومت داد وصول کر رہی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جہانگیر ترین کی حمایت میں پارٹی کے کسی ذمہ دار کی طرف سے کوئی بیان نہیں آیا۔ گویا سب لاتعلق ہو گے ہیں۔ اس بات کا اعتراف خود جہانگیر ترین نے کیا ہے کہ ان کے وزیراعظم سے اب وہ تعلقات نہیں رہے۔ گویا یہ کنارہ کشی نہ صرف ان کے پارٹی میں مستقبل کا فیصلہ کرے گی اور حتمی رپورٹ آنے کے بعد پر ہونے والی کارروائی پر بھی۔

دوسرا اہم نکتہ کہ کیا وزیراعظم جنوبی صوبہ کے رہنماؤں کے خلاف اور اتحادی جماعت ق لیگ کے خلاف کارروائی کریں گے؟

مونس الہیٰ پہلے ہی وزیر نہ بنانے پر ناراض ہیں اور اب جب مونس الہیٰ کا نام سکینڈل میں شامل ہے تو یہ اب ناممکن ہے۔ گویا کہ امتحان اب شروع ہوتا ہے کہ وزیراعظم کیا اقدامات کرتے ہیں۔ ایک طرف جہانگیر ترین ہے دوسری طرف اتحادی جماعتوں کے لوگ۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان میں تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے یا تاریخ رقم کرتے ہوئے وزیراعظم خود تاریخ کا حصہ بن جائیں گے۔