سُرمئی بادل۔۔ پل بھر میں رم جھم اور پھر تیز بارش۔ اچانک منظر ہی بدل گیا۔ سارا شہر نہا گیا۔۔۔ سیپ نے منہ کھولا۔ کچھ قطرے اس میں گرے اور موتی بن گئے۔ جن کی آب و تاب نے آنکھوں کو خیرہ کر دیا۔ شہر کئی تصویروں میں بٹ گیا۔ کون سی تصویر اچھی ہے؟ پھول لہلہاتے ہیں۔ درخت بارش میں نہاتے ہیں۔ رنگ باتیں کرتے ہیں۔ ایک بھیگا ہوا آدمی کسی پناہ کی تلاش میں ہے اور خوبرو حسینہ اپنے بھیگے ہوئے ملبوس کو بچاتی اپنے ہم نشیں کو ڈھونڈتی ہے۔ اس منظر کو کسی ایک تصویر میں کیسے سمو لیا جائے۔ آسمان پر بجلی کی کڑک نے کچھ لکیریں بھی کھینچ دی ہیں۔ قوس قزح بھی اُمڈ آئی ہے۔ وہ ان تصویروں کو اپنی آنکھ سے سیلولائیڈ پر منتقل کر رہا ہے۔ سب کچھ نیا نیا، اجلا اور سہانا ہے۔
ایک عزم، جستجو اور تلاش اس کی آنکھوں سے جھلکتی ہے۔ ایک خواب جس کی تعبیر پانے کے لیے وہ کُوبہ کُو اور قریہ قریہ گھومتا ہے۔ وہ اپنے کام کو عبادت کی لگن سے انجام دیتا ہے۔
ذرا بھی فرق نہیں ہو بہو دھڑکتا ہے
یہ دل نہیں میرے سینے میں تُو دھڑکتا ہے
لمحوں میں بکھری ہوئی زندگی اور ٹکڑوں میں بکھری ہوئی تصویر کو کسی ایک فریم میں مقید کرنے کا اسے جنون ہے۔۔۔اس نے خود کو دریافت کر لیا ہے۔ اس کی تصاویر پر مشتمل البم اس کے سفر کی کہانی سناتی ہے۔
خوابوں امیدوں، روشنیوں اور اجالوں کا شہر۔۔۔ باغوں اور پرندوں کا شہر۔۔۔ فن کاروں اور حرف و آگہی کے تخلیق کاروں کا شہر۔۔۔ جہاں لوگ گیت سناتے، جھومتے ناچتے اور ڈھول کی تھاپ پر دھمال ڈالتے ہیں۔ یہاں ایک تاریخ خوابیدہ ہے۔۔ درویشوں، صوفیوں اور اولیاء کے نقش کف پا کسی دشت امکاں کا پتہ دیتے ہیں۔ گمان، وجدان اور نروان یہاں موجزن ہوتے ہیں۔ شہر لاہور۔۔۔ جس کے دروبام بوہے باریاں، جھروکے، حویلیاں اور گلی کوچے ماضی کی داستان سناتے ہیں۔ شہر کی فصیل کے باہر۔۔ انار کلی بازار۔۔ نیلا گنبد۔۔۔ بیچوں بیچ ٹھنڈی سڑک مال روڈ کسی ندی کی مانند بہتی جاتی ہے۔۔۔ گنگارام، دیال سنگھ، جانکی دیوی، جمعیت سنگھ، گلاب دیوی، جن کی انسان دوستی اور محبت کے نقوش آج بھی شہر لاہور میں ثبت ہیں۔
مزنگ کا علاقہ لاہور شہر کا دل ہے۔ جہاں کرکٹر وسیم اکرم جیسا ستارا ابھرا اور اس کی روشنی نے ایک عالم کو روشن کیا۔ وہ پاکستان کی پہچان بنا۔ لاہور محض کھابوں کاشہر نہیں ہے۔ یہاں کے علمی و ادبی ادارے اپنی منفرد پہچان اور تاریخ رکھتے ہیں۔ مزنگ کے علاقے سے حسن دین بھٹی مرحوم تعلق رکھتے تھے۔ جن کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ حسن دین بھٹی فوٹوگرافر تھے۔ اندرون شہر سے جب وہ مزنگ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہائش پذیر ہوئے تو انہوں نے اسی علاقے میں اپنی فوٹوگرافی کی دکان بنائی۔ ان کا چھوٹا بیٹا طارق حسن بھٹی کیتھڈرل اسکول میں پڑھتا تھا۔ وہ اسکول سے واپسی پر اپنے والد کی دکان آ جاتا تھا اور انہیں کام کرتے ہوئے دیکھا کرتا تھا۔ قریب ہی لاہور ہائی کورٹ تھا جہاں سے اکثر و بیشتر وکلاء حضرات حسن دین بھٹی کی دکان پر آتے تھے۔ نئے میڈیا ہاؤسز اور اخبارات کا چلن عام نہیں ہوا تھا۔ پرانے اخبار نویس اور اخبارات کے فوٹو گرافر بھی ان کی دکان پر آتے جاتے تھے۔ حسن دین بھٹی معروف ہو چکے تھے۔
طارق حسن بھٹی کو فوٹوگرافی سے لگائو اپنے والد محروم سے ودیعت ہوا تھا۔ آہستہ آہستہ اس نے کیمرے کے بارے میں جاننا شروع کیا ہے۔ اس وقت اس کی عمر 18سال تھی۔ اس کے والد صاحب کا ایک شاگرد طارق علی جو پاکستان ٹائمزاخبار میں فوٹوگرافر تھا اکثر اسے اپنے ساتھ لے جایا کرتا تھا۔ 1995ء میں وہ طارق علی کے ساتھ روزنامہ نوائے وقت گیا۔ وہاں اس کی ملاقات اختر شاہ اور اعجاز حسین لاہوری سے ہوئی جو بہت سینئر فوٹوگرافر تھے۔ انہوں نے نوجوان طارق حسن بھٹی کے شوق اور لگن کو دیکھتے ہوئے اس کے سر پر دست شفقت رکھا اور اسے مختلف جگہوں پر بھیجنا شروع کیا۔ نوائے وقت کے آفس میں ہی اس کی ملاقات ایک نابغہ ہستی اظہر حسین جعفری کے ساتھ ہوئی جو انگریزی روزنامہ ’’ڈان‘‘ کے فوٹوگرافر تھے۔ ان کے ساتھ طارق حسن بھٹی کا تعلق استوار ہو گیا جو اظہر حسین جعفری کی زندگی کے آخری دم تک قائم رہا۔ اب طارق حسن بھٹی باقاعدہ فوٹوگرافر بن گیا۔ اس کے سامنے فوٹوجرنلزم کا میدان تھا اور وہ ایک نووارد تھا۔ طارق حسن بھٹی نے 24سال کی عمر میں روزنامہ پاکستان میں پہلی باقاعدہ ملازمت کی۔ اس کے بعد روزنامہ ’’چٹان‘‘ میں کام کیا جس کے ایڈیٹر آغاشورش کاشمیری کے صاحبزادے مسعود شورش تھے۔ اس کے بعد روزنامہ ’’نیااخبار‘‘، روزنامہ ’’صحافت‘‘ میں کام کیا۔ فوٹوگرافی کے اسرار ورموزا س پر کُھلتے چلے گئے۔
اردو صحافت کے نئے دور کا آغاز ہو چکا تھا الیکٹرنک چینلز شروع ہو چکے تھے۔ طارق حسن بھٹی ایک نئے اخبار روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ ہو گیا۔ جہاں اس نے 16برس کام کیا اس کے ایڈیٹر جواد نظیر مرحوم تھے جو کسی بھی نئے اخبار کی بنیاد رکھنے میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ وہ ایک نظریاتی شخصیت کے مالک انسان تھے۔
طارق حسن بھٹی کو قدم قدم پر اظہر حسین جعفری کی رہنمائی بھی حاصل تھی جو اکثر بیشتر اسے اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ ان سے طارق حسن بھٹی نے پیشہ وارانہ زندگی کے حوالے سے بہت کچھ سیکھا۔ اظہر حسین جعفری درحقیقت فوٹوجرنلزم میں استاد کا درجہ رکھتے تھے۔ انہوں نے ہی طارق حسن بھٹی کو بتایا کہ اگر لائٹ آپ کی طرف آ رہی ہے تو اس کی طرف رخ کرکے تصویر کیسے اتارنا ہے۔ سبجیکٹ فوٹوگرافی کیا ہے۔ تصویر خبر کیسے بنتی ہے۔ طارق حسن بھٹی کو لینزز مختلف زاویے اور دھوپ چھائوں میںفوٹوگرافی کے بارے میں اظہر حسین جعفری نے بتایا ،سکھایا اور سمجھایا۔ایک اچھے شاگرد کی طرح طارق حسن بھٹی نے استاد کا بتایا ہواایک ایک نسخہ ذہن نشین کرلیاوہ برگد کی چھائوں میں بیٹھا ہوا تھا۔
16برس کام کرنے کے بعد طارق حسن بھٹی کو روزنامہ ایکسپریس سے گولڈن شیک ہینڈ مل گیا اور وہ بے روزگار ہو گیا۔ لاہور پریس کلب کی سرگرمیوں میں اس نے بھرپور حصہ لینا شروع کیا۔ پریس کلب کی گورننگ باڈی کا ممبر منتخب ہو ا اور فوٹوگرافر ایسوسی ایشن اور پی یو جے کے انتخاب بھی اس نے جیتے مگر اسے کام کی تلاش تھی۔
ایک دن پریس کلب کے نوٹس بورڈ پر لگے ہوئے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر اس کی نظر پڑی۔ جس پر لکھا تھا۔ ایک رفاحی اور فلاحی ادارے المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کو ایک فوٹوگرافر کی ضرورت ہے جو ویڈیو گرافی بھی جانتا ہو۔ وہ فوراً ادارے کے آفس پہنچا۔ انٹرویو ہوا۔ سوال جواب ہوئے۔ اس کے تجربے کو دیکھا گیا اور وہ منتخب ہو گیا۔ اس کی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا۔اس نے روایتی فوٹوجرنلزم کو تج دیا۔ دوستوں نے اسے روکا مگر خیرخواہوں نے اسے صلاح دی کہ اس ادارے کو جوائن کرنا اس کے لیے سودمند ہے۔
المصطفیٰ نادار اور ضرورت مند لوگوں کی مدد کرتا ہے۔ پاکستان کے دورافتادہ اور پس ماندہ علاقوں میں بسنے والوں کو خوراک فراہم کرتا تھا۔ طبی سہولتیں دیتا ہے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو بینائی کے عوارض میں مبتلاہیں ان کے علاج معالجے اور آنکھوں کے مفت آپریشن ان کی دہلیز پر جا کر کرنا اس ادارے کے مقاصد ہیں۔ پانی کے لیے نلکے بنانا، مساجد بنانا بھی المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے ذمہ ہے۔ یہ ٹرسٹ مفت دسترخوان ترتیب دیتا ہے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں اور دنیا کے پندرہ ممالک میں یہ ادارہ کام کر رہا ہے۔ اسے ایدھی ویلفیئر ٹرسٹ اور دیگر ویلفیئر اداروں کے مماثل قرار دیا جا سکتا ہے۔ جہاں جہاں یہ ٹرسٹ کام کر تا ہے طارق حسن بھٹی اس کی تصاویر بناتا اور ویڈیوگرافی کرکے اس کی ویب سائٹ پر بھیجتا ہے۔ تھرپارکر ہو یا آزادکشمیر۔ برفانی علاقوں میں لوگوں کو خوراک فراہم کرنا ہو، رضائیاں دینا ہو، وہاں المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے کیمپ لگتے ہیں اور طارق حسن بھٹی کا کیمراآن ہوتا ہے۔
طارق حسن بھٹی نے لاہور کی سیاسی اور سماجی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کی تصاویر بنائی۔ کوئی لانگ مارچ ہو، جلسہ جلوس ، وہ ہر جگہ گیا۔ مگر المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ میں اس کے کام کی نوعیت بدل چکی ہے۔ وہ ہفتوں اپنے شہر اور گھر سے دور ان علاقوں میں جاتا ہے جہاں المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کام کرتا ہے۔
طارق حسن بھٹی کا کہنا یہ کہ ’’اب وقت کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ کسی بھی وقت کسی بھی شہر میں جانا ہوتا ہے میں ہر وقت کمربستہ رہتا ہوں ۔ میرے کام اور پیشے کی اس سے زیادہ پذیرائی کیا ہو سکتی ہے کہ میری تصاویر دیکھ کر المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے ڈونرز اسے امداد فراہم کرتے ہیں۔ میں اپنے ملک کے دورافتادہ علاقوں کو دیکھتا ہوں۔ ناداری اور بھوک سے بلکتے ہوئے لوگوں کو دیکھتا ہوں۔ بینائی سے محروم جب ایک عمر رسیدہ بوڑھی عورت کی آنکھوں کی روشنی واپس آتی ہے تو وہ دونوں ہاتھ اٹھا کر ہزاروں دعائیں دیتی ہے۔ میں انسانیت کو عکس بند کر رہا ہوں۔
جب کورونا کی وبا آئی تو المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ نے ماسک اور سینی ٹائزر ہی تقسیم نہیں کیے آگہی کے ساتھ خوراک بھی دی۔ لوگوں کو اس وبا سے بچنے کا شعور بھی دیا۔
طارق حسن بھٹی کا کہنا ہے کہ ’’میں نے زندگی کا کوئی لمحہ بھی ضائع نہیں کیا ۔ میری ترجیحات بدلتی چلی گئیں۔ اوائل زندگی میں میرے اندر کھلنڈراپن تھا۔ استادوں سے ملا تو ذہنی پختگی آئی۔ کام کے طور طریقے بدلے تو پھر زندگی بدل گئی۔ میں آج بھی اظہر حسین جعفری کو اپنے ساتھ محسوس کرتا ہوں۔ جب چاہتا ہوں آنکھیں بند کرکے ان سے رہنمائی حاصل کر لیتا ہوں۔ وہ حقیقی معنوں میں ایک قدر آور شخصیت کے مالک انسان تھے۔ میرے والد محترم حسن دین بھٹی مرحوم نے مجھے کیمرا دیا اور کام کو عبادت کا درجہ دینے کا سبق دیا۔ اظہر حسین جعفری نے مجھے پیشہ وارانہ زندگی خوش اسلوبی سے انجام دینے اور کیمرا اٹھانے کا سلیقہ دیا۔ المصطفیٰ نے مجھے میرا پورا نام طارق حسن دین بھٹی دیا ہے۔ میری تصویریں میری کہانی ہیں سیپ میں بند موتی اپنی چمک سے آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے۔ شہر لاہور میرے اندر بستا ہے۔ اس شہر کے محسن اور میرے استاد ہر لمحہ میرے ساتھ ہوتے ہیں۔
’’میں چاہتا ہوں کہ میں نے جس طرح انسپائر ہو کر فوٹوجرنلزم میں قدم رکھا اس طرح میں بھی کچھ ایسا کام کروں کہ میرے جونیئر مجھ سے انسپائر ہوں اور مجھے رول ماڈل سمجھیں۔ میں اپنی اتاری ہوئی تصاویر دیکھتا ہوں تو وہ مجھ سے ہم کلام ہوتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا کہ تصویریں سانس لیتی ہیں۔ میرا سفر جاری ہے اور میرا شوق میرا کام بن گیا ہے۔ جسے میں عبادت سمجھ کر انجام دیتا ہوں یہی میرے والد مرحوم حسن دین بھٹی کی نصیحت تھی۔‘‘
طارق حسن بھٹی کا نام کسی ایوارڈ کے لیے نامزد ہونا درحقیقت یہ کام کی عزت ہے جو اس نے بخوبی سرانجام دیا ہے اور وہ آج تک اپنے کام کو نئی جہتیں دینے میں مصروف ہے۔
طاہر اصغر مصنف و صحافی ہیں ان کی دلچسپی کے موضوعات پروفائل اور آپ بیتی لکھنا ہے۔ وہ جالب بیتی اور منٹو فن و شخصیت کی کہانی کے مصنف ہیں۔ زیر طبع ناول ’’قصہ غوغا غٹرغوں‘‘ ہے ۔موسیقی اور ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔