پاکستان کے موجودہ تباہ کن، ابتر اور مخدوش حالات کی ذمہ دار تمام سیاسی جماعتیں، مقدس ادارے اور عوام الناس ہیں۔ اس بستی کو نزاعی کیفیت تک پہنچانے میں ہر کسی نے اپنے اپنے وقت پر بھرپور حصہ ڈالا ہے۔ یہ تمہید باندھنا اس لیے ضروری ہے کہ جب کوئی گستاخ عمران خان کے قول و فعل اور سیاسی و اخلاقی قلابازیوں کو زیر تنقید لانے کا گناہ کرتا ہے تو جھٹ عمرانی فرقہ کے پیروکار اس بے چارے کو نوازشریف اور زرداری وغیرہ کی گود میں جاگزیں کر دیتے ہیں۔ یعنی اگر تم غیر مشروط طور پر عمران خان کے ساتھ ہو تو حق پر ہو اور اگر عمران خان کی ہاں میں ہاں ملانے والے نہیں ہو تو پھر تم باطل گروہوں کے ساتھ کھڑے ہو۔
سیاست میں یہ شدت پسند فرقہ ورانہ قسم کی سوچ عمران خان کی نایاب تخلیق ہے۔ سیاسی افکار کو عقیدے میں ڈھالنے کی جھلکیاں بھٹو ازم میں بھی ملتی ہیں لیکن عمران ازم نے تو سیاسی جماعت کو ایک کٹر فرقے میں ڈھالنے کا پورا سیزن چلا دیا ہے۔ اس سیزن کی ہر نئی قسط سابقہ اقساط سے بڑھ کر حیران کن اور خوفناک ہوتی ہے۔ عمران خان اس فن میں اتنا مشاق ہو چکا ہے کہ اسے اب حق کے طالبوں کے لیے ایک تعلیمی ادارہ کھولنا چاہئیے۔ اس ادارے میں طالب علموں کو درج ذیل گُر سکھائے جانے چاہئیں:
1۔ چھٹانک بھر حقیقت میں منوں سیر دروغ گوئی ملا کر بیانیہ تیار کرنے کا گُر۔
2۔ جھوٹے بیانیے کو مسلسل شدت کے ساتھ دہراتے رہنے کا گُر تا کہ لوگ اسے سچ مان لیں۔
3۔ اگر جھوٹ پکڑا جائے تو بالکل شرمندہ نہ ہونے کا گُر۔
4۔ اگر کوئی سرپھرا تنقید و اعتراض کر بیٹھے تو اس کو غدار، جاہل، بے شعور، باطل، موذی، مردود، نامرد اور حسب ذوق جو غلیظ گالی بھی آپ چاہیں ان سر پھروں کو دینے کا گُر۔
5۔ جھوٹ، دروغ گوئی اور تخیل کے مصالحوں سے تیارکردہ بیانیہ جب باسی ہو جائے تو نیا حیران کن فسانہ تراشنے کا گُر۔
بات کہیں سے کہیں نکل گئی ہے، ہم اپنی توجہ کا رخ اس جانب موڑتے ہیں کہ آیا قدرت عمران خان کے ساتھ ہے؟
قدرت حکمت، حق، ہم آہنگی اور توازن کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ جس شخص کے اعمال حق، حکمت، ہم آہنگی اور توازن کے برعکس ہوں تو ایسے شخص کے ساتھ قدرت کس طرح ہو سکتی ہے؟ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ ایسا شخص ریاست کی طویل طوائف الملوکی کے نتیجے میں پیدا ہوا ہو اور پھر ریاست کو ہی ہڑپ کر جائے۔ ایسا شخص ریاست کے لیے مرہم نہیں بنتا بلکہ پہلے سے لگے گہرے زخموں پر تیزاب بن کر برستا ہے۔ جس شخص میں سے حق، حکمت، ہم آہنگی اور توازن ختم ہو جائے تو بھلا ایسے شخص کے ساتھ قانون قدرت کس طرح چل سکتے ہیں؟
عمرانی فرقہ کے مریدوں نے کبھی اپنے پیرومرشد سے مندرجہ ذیل سوالات پوچھنے کی جسارت کی ہے؟
1۔ ہم نے مان لیا کہ نواز اور زرداری اپنی سیاست چمکانے کے لیے سیاسی شعبدہ بازیوں سے کام لیتے ہیں۔ لیکن جناب آپ ( عمران خان) تو حق پر تھے، آپ نے امریکی سازش کا جھوٹا بیانیہ گھڑ کر عوام کو گمراہ کیوں کیا؟
2۔ اگر امریکی سازش کا بیانیہ سچ تھا تو جناب آپ اس سچ سے پیچھے کیوں ہٹ گئے؟ کیونکہ جو حق پر کھڑا ہوتا ہے وہ تو سچ سے منہ نہیں پھیرتا؟
اگر پی ٹی آئی کے انقلابی اپنے لیڈر عمران خان کی قلابازیوں کو مصلحت اور سیاسی حکمت عملی کا نام دیتے ہیں تو ان سے عرض ہے کہ بنیادی اصولوں کو مصلحت اور سیاسی چال بازیوں کے لیے قربان نہیں کیا جا سکتا۔ منصوبہ بنا کر عوام سے جھوٹ بولنا کہاں کی سیاسی حکمت عملی اور مصلحت ہے؟ اگر خان کے لیے اپنی سیاست چمکانے کی خاطر جھوٹ، دروغ گوئی اور فریب کاری جائز ہے تو پھر جناب تبدیلی کیسی؟
ان سوالات کے علاوہ پیرومرشد اور پیروکاروں سے حق پر کھڑا ہونے کے حوالے سے سینکڑوں سوال پوچھے جا سکتے ہیں لیکن اس طرح کرنے سے یہ ننھا منا سا مضمون ایک ضخیم کتاب کی شکل اختیار کر جائے گا۔
عمران خان نے حسب ضرورت امریکی سازش کی جگہ باجوائی سازش کا بیانیہ گھڑ لیا اور اگر مستقبل میں عمران خان کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات ٹھیک ہو گئے تو پھر باجوائی سازش کی جگہ کسی اور بے چارے کی کم بختی آ جائے گی اور لطف کی بات یہ ہے کہ خان کے مرید ہر تضاد و جھوٹ و نفاق و مکر و فریب کو قبول کرتے چلے جائیں گے۔ تضادات و جھوٹ کو حکمت قرار دینا عمرانی فرقے کا ہی کمال ہے۔
خان صاحب کے حق پر کھڑے ہونے کا ایک اور لطیفہ ملاحظہ فرمائیں۔ نواز و زرداری کی کرپشن کی الف لیلہ سنانے والے عمران خان اپنے دور حکومت میں برپا ہونے والی کرپشن کی داستانوں پر آج تک خاموش ہیں۔ اس نکتے پر اگر عمران کا کوئی پروانہ یہ مؤقف اختیار کرے کہ نواز و زرداری گروپ کی چوریاں و ڈکیتیاں تو بہت بڑی بڑی ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی دور حکومت کی بدعنوانیاں چھوٹی اور معمولی ہیں تو کہنا پڑے کا گہ جناب یاد رکھیں! چوری چھوٹی یا بڑی نہیں ہوتی، چوری چوری ہوتی ہے۔
ہم کرپشن کو چھوٹی کرپشن اور بڑی کرپشن کے خانوں میں تقسیم نہیں کر سکتے۔ اگر ہم اس طرح کرتے ہیں تو پھر 20 لاکھ کی کرپشن کرنے والا ملزم جج کے سامنے انتہائی معصومانہ لہجے میں حکمت کے یہ موتی بکھیر سکتا ہے کہ جج صاحب! میں نے تو صرف 20 لاکھ کی چوری کی ہے جبکہ شہر میں درجنوں ایسے چور ہیں جو 20، 20 کروڑ کی چوریاں کرتے پھر رہے ہیں۔ اس لیے جج صاحب مجھے رہا کر دیا جائے۔
اب اگر جج عمرانی فلسفہ حیات پر چلنے والا ہوگا تو چھوٹے چور کا یہ استدلال قبول کرتے ہوئے اسے باعزت بری کر دے گا۔ پھر ایک دن 20 کروڑ کی کرپشن کرنے والا شخص خوش قسمتی سے اسی جج کے سامنے حاضر ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ حضور میں نے تو صرف 20 کروڑ کی چوری کی ہے، آپ ذرا شہر کا چکر تو لگائیں۔ لوگ تو 20، 20 ارب کی چوریاں کر رہے ہیں، اس لیے مجھے رخصتی عنایت فرمائیں۔
خان صاحب کا کوئی عاشق یہ بھی جواب دے سکتا ہے کہ اے دشمنان عمران خان! اگر تم لوگوں کی بات مان بھی لی جائے کہ بزدار کمپنی اینڈ زنان خانے نے کرپشن کی ہے تو بھلا اس میں خان کا کیا قصور ہے؟
اگر ایک وزیراعظم خوابوں کی تاثیر کے زیر اثر بڑے بڑے عہدوں پر نااہل لوگوں کو تعینات کرتا ہے اور وہ لوگ خوابوں ہی خوابوں میں کرپشن کرتے ہیں اور جب ان خوابی کرپشن کے قصوں کو ثبوتوں کے ساتھ وزیر اعظم کے سامنے رکھا جاتا ہے تو صاحب بہادر کچھ بھی نہیں کرتے۔ ایسے وزیر اعظم کو حق کا سپہ سالار کہا جا سکتا ہے؟
عمران خان کی حکمت و بصیرت کی جہاں تک بات ہے تو اس پر قلم گھسانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کیونکہ خان صاحب کے قریبی یہ کہتے ہیں کہ خان صاحب کانوں کے کچے ہیں، فوراً باتوں میں آ جاتے ہیں۔
اسی طرح ہم آہنگی اور تضادات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ خان کے تضادات پر بھی لفظوں کو ضائع کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
تو جناب من! قدرت قائد اعظم جیسے لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے جو حق، حکمت، ہم آہنگی و توازن کے پیکر ہوتے ہیں۔ عمران خان ہمارے شامت اعمال کی تصویر ہے، کوئی مسیحا نہیں ہے۔
اگر ملک میں الیکشن ہوتے ہیں جن میں پی ٹی آئی بھاری اکثریت سے جیت جاتی ہے اور عمران خان پھر سے اقتدار کا تاج سر پر سجا لیتے ہیں تو عوام دو خاندانوں کی غلامی سے نکل کر ایک اور غلامی میں غارت ہو جائیں گے۔ جس طرح سرمایہ دارانہ نظام کے ڈسے ہوئے لوگ اشتراکیت کے پیروں تلے آ کر کچلے گئے تھے۔ جس طرح زار روس اور سرمایہ داروں کے مظالم سے تنگ عوام سٹالن اور لینن کے پیچھے لگ کر خاک ہو گئے تھے۔ اسی طرح پاکستان میں جو طبقہ فرسودہ نظام اور پرانی سیاسی پارٹیوں سے تنگ ہے وہ ایک غلامی کے مرکز سے نکل کر دوسری غلامی کی طرف گامزن ہے۔
اندھیروں سے اندھیرے پھوٹ رہے ہیں اور اب تاریکی کا راج ہے۔ روشنی کی امید ضرور کرتے مگر ملک زادہ منظور احمد صاحب کا یہ شعر ہماری ٹوٹی پھوٹی امید پر ہتھوڑے کی طرح برستا ہے:
؎ دریا کے تلاطم سے تو بچ سکتی ہے کشتی
کشتی میں تلاطم ہو تو ساحل نہ ملے گا