'عمران خان نے پارلیمان کو چھوڑا، اب خود چل کر حکومت سے مذاکرات کریں'

'عمران خان نے پارلیمان کو چھوڑا، اب خود چل کر حکومت سے مذاکرات کریں'
موجودہ بحران میں تمام فریقین نے جو مؤقف اپنا لیے ہیں تو اس بحران سے نکلنے کا کوئی رستہ نظر نہیں آ رہا۔ کل جب سنا کہ چیف جسٹس ساتھی ججز سے ملاقاتیں کر رہے ہیں تو امید پیدا ہوئی تھی مگر آج جس طرح نیا بنچ بنا دیا گیا ہے تو پھر مایوسی ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی نے خود پارلیمنٹ کو چھوڑا تھا، عمران خان اب حقیقی لیڈر بنیں اور حکومت کے پاس خود جا کر کہیں کہ میں مذاکرات کرنا چاہتا ہوں۔ عمران خان اس وقت پارلیمانی سیاست میں نہیں ہیں، قانونی طور پر وہ کسی کی نمائندگی نہیں کرتے۔ سسٹم کا حصہ بننے کے لئے انہیں پارلیمان میں آنا ہو گا۔ یہ کہنا ہے انسانی حقوق کی کارکن حنا جیلانی کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبرسےآگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ نہیں سپریم کورٹ ہے، یہاں یہ اصول نہیں چلتا کہ جس نے اکثریت دکھا دی ہاؤس اسی کا ہو گیا۔ عوام کا کنسرن یہ ہے کہ 4 لوگوں کے سنائے گئے فیصلے کی وضاحت کریں۔ سپریم کورٹ کی مداخلت کی وجہ سے موجودہ بحران پیدا ہوا ہے، اگر سپریم کورٹ اس معاملے کو متعلقہ لوگوں پر چھوڑ دیتی تو وہ خود ہی فیصلہ کر لیتے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی حالات خراب کرنے میں برابر کی شریک ہے، انگلیاں ان کی جانب بھی اٹھ رہی ہیں۔ سیاست دانوں کو لڑنے دیں، یہ لڑ لڑ کے راستہ نکال لیں گے، آپ اس میں مداخلت نہ کریں۔ فوجی قیادت نے ملک کے ساتھ جو کیا ہے ہم اس کو معاف نہیں کر سکتے۔

مبشر بخاری نے کہا کہ سب سے پہلے ہمیں یہ فیصلہ کر لینا چاہئیے کہ پاکستان میں پارلیمنٹ سپریم ہے، سپریم کورٹ یا پھر اسٹیبلشمنٹ۔ جب تک یہ طے نہیں ہو جاتا تب تک پورے ملک میں کنفیوژن جاری رہے گی۔ پاکستان میں دو حافظ قرآن صاحبان نے آپس میں بات چیت کی ہے اور دونوں کے مابین پیغام رسانی بھی ہوئی ہے۔ ایک آرمی چیف ہیں اور دوسرے عدالت عظمیٰ میں بیٹھے ہیں۔ ان پیغامات میں فوجی قیادت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ آپ نے بہت سخت مؤقف اپنائے ہیں، اب ایک قدم پیچھے ہٹیں۔ اس کے علاوہ حکومت اور پی ٹی آئی میں بیک ڈور ڈپلومیسی بھی چل رہی ہے۔

مشرف زیدی نے کہا کہ یہ صرف پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ ہی کی لڑائی نہیں ہے۔ اس میں دو اور لڑائیاں چل رہی ہیں۔ سیاست میں پاپولزم اور روایت پسند گروہ کے درمیان اور عدلیہ میں کنزرویٹو دھڑے اور لبرل گروہ کے مابین ہونے والی لڑائی۔ اس لڑائی میں کوئی بھی جیتے مگر ہارے گی عدلیہ ہی۔ اس لڑائی سے ہمیں پتہ چلا ہے کہ ہمارے سیاست دان چاہے وہ پی ڈی ایم جماعتوں میں شامل ہوں یا پی ٹی آئی والے، وہ موجودہ حالات کو سنبھالنے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ دوسری یہ بات کہ عدلیہ کے جج آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ ہم نے اپنے ریاستی اداروں کو تباہ کر دیا ہے۔

مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ دو صوبوں میں جلدی انتخابات کروا کر آپ باقی صوبوں کو یہ پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ ملک کا مستقبل ہم نے طے کرنا ہے، آپ ہمیشہ ہمارے پیچھے پیچھے چلتے رہیں۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبرسےآگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔