یہ ماتم وقت کی گھڑی ہے

یہ ماتم وقت کی گھڑی ہے
زندگی بھر اٹھتے بیٹھتے پاکستانی فضاؤں می عدم برداشت اور عدم احترام سے بھری گفتگو کا شاہد رہ چکا ہوں۔ پھر مذہب، غیرت، نفرت اور تکبر کی بنیاد پر انفرادی اور معاشرتی سطح پر تفرقے، ظلم اور پنجرے دیکھے۔ پھر ظلم کے خلاف خاموشی، ظالم کا احترام اور 'ہوتا ہے چلتا ہے' کی آوازیں سماعتوں سے ٹکرائیں۔ پھر حق کی آواز اٹھانے والے اور مسائل کی نشاندہی کرنے والوں پر 'یہ نہ بولو، یہ نہ سوچو' کے جملے سنے۔ اور جمہور کی زبانوں پر 'ہائے جمہوریت ناکارہ اور ہائے جمہوریت بیکارا' کی صداییں سنائیں دیں۔

دوستو! جمہوریت محض حکمرانوں کی حکومت نہیں۔ یہ عوامی رجحانات اور رویوں کا نام ہے۔ جو اگر عوام اپنا لیں تو نتیجہ مجموعی بہتری پر ہوتا ہے۔ جمہوریت وہ خواب ہے جس کی تعبیر بھی ممکن ہے اور نتیجہ بھی۔ ہم
سب بہترین جمہوریت کے خواہشمند ضرور لیکن اپنے رویوں اور اعمال سے جمہوری طور پر ناکارہ ہیں۔ لیکن ابھی بھی حکومت میں براجمان قوتوں کی تبدیلی کی طرح ہمارے آمرانہ اور خودکش رویوں مے تبدیلی ممکن ہے۔ اور شیکسپیئر کے مقولے کے مطابق، 'Change is a spice of life'۔

وہ طلسماتی گولیاں جو ہمارے لئے مشکل کشا کی حیثیت رکھتی ہیں

کائنات کی ہر شے تبدیلی کی کی گاڑی پہ سوار ہے۔ اور ہمارے رویے بھی اسی طرح بدل سکتے ہیں۔ صدق دل سے مختلف آرا کا احترام، مظلوم کے حق میں جدوجہد، کتاب بینی، تعمیر اور تعلیم سے محبت، جاپانیوں کی طرح 12 گھنٹے لگاؤ کے ساتھ کام کرنا، فرانسیسیوں کی طرح اپنی تہذیب اور روایات سے محبّت کرنا، ڈنمارک، کینیڈا اور نیوزی لینڈ کے باسیوں کی طرح زندگی کے ہر کام میں ایمانداری اور شفافیت سے محبّت کرنا، چینیوں کی طرح سال میں کم از کم 12 کتابیں پڑھنا، آئس لینڈ کے شہریوں کی طرح صفائی کے بنیادی اصولوں سے محبّت کرنا اور کچھ مختلف کرنے کا جنون ہونا۔ یہ سب جمہوری رویے کا حصہ ہیں۔ اور یہی وہ طلسماتی گولیاں ہیں جو ہمارے لئے مشکل کشا کی حیثیت رکھتی ہیں۔

مجھے ایک نئی سحر نظر آ رہی ہے

پاکستان یقیناً انسانی ترقی کی شرح (Human Development Index) میں 188 ملکوں میں 137 نمبر پر ہے، کرپشن سے پاک ملکوں مے 112 نمبر پر ہے، قدرتی ماحول میں صفائی (Environmental Performance Index) میں 146 ملکوں میں سے 131 نمبر پر ہے، تعلیمی رجحان کے حوالے سے ہماری شرح خواندگی 135ویں نمبر پر ہے لیکن یہ اداس شام کی باتیں ہیں۔ مجھے ایک نئی سحر نظر آ رہی ہے۔

لیکن ایک اور 'لیکن'۔۔ کیونکہ بقول فیض احمد فیض 'وہ منزل ابھی نہی آئی'۔ ابھی تر و تازہ کوششیں اور جدوجہد ضروری ہیں۔ ہمارے موجودہ رویوں کے ساتھ پاکستان پر صرف ملامتوں اور بربادیوں کے سائے مستقبل میں دیکھنے کو ملیں گے۔ بقول اقبال،

بے محنتِ پیہم کوئی جوہر نہیں کھُلتا
روشن شرَرِ تیشہ سے ہے خانۂ فرہاد!

مصنف NUST میں ابلاغیات کے طالب علم ہیں۔