گلگت بلتستان میں ڈاکٹرز حکومتی پسند نا پسند کا شکار ہونے لگے ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن گلگت بلتستان نے گزشتہ ہفتے ہسپتالوں کے مسائل، ڈاکٹرز کو غیر قانونی طور پر ملازمت سے فارغ کرنے، الاؤنس کی عدم فراہمی سمیت دیگر مسائل کے حل کےلیے دھرنے دئیے جس میں ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن گلگت بلتستان اور دیگر یونینز شریک ہوگئیں اور آخر کار ان کے مطالبات مانے گئے۔ مطالبات حل کرنے کی یقین دھانی کے ساتھ ساتھ یہ بھی یقین دہانی ہوئی تھی کہ ڈاکٹروں کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں ہوگی۔
مطالبات ماننے کے بعد احتجاجی مظاہرہ ختم کیا گیا اس کے چند دن بعد حکومت نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ڈاکٹر اعجاز ایوب کو سکردو ٹرانسفر کرنے کے احکامات دئیے جبکہ چند ڈاکٹرز کو معطل کر دیا۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن گلگت بلتستان کے صدر ڈاکٹر اعجاز ایوب نے کہا ہے کہ انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ڈاکٹرز کو ادھر ادھر کرنا توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ ہم اس انتقامی کارروائی کے خلاف کورٹ گئے اور کورٹ نے واضح احکامات دئیے ہیں کہ احتجاج کرنا ڈاکٹرز کا بنیادی حق ہے۔
دوسری جانب لائن ڈیپارٹمنٹ کے ملازمین کے صدر اور دیگر یونین کے ذمہ داروں کے خلاف بھی انتقامی کارروائی کا آغاز کیا گیا ہے۔
احتجاجی یونینز کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ملازمین کے مسائل حل کرنے کے نام پہ ووٹ لیا مگر اب لگتا ہے کہ گلگت بلتستان میں حکومت ملازم کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان کے لیے مسائل پیدا کرنے پہ تلی ہوئی ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ڈاکٹرز کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن گلگت بلتستان کا شروع دن سے مطالبہ رہا ہے کہ گلگت بلتستان کے سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کی کمی کو فوراً پورا کیا جائے، ادویات کی کمی سمیت دیگر ٹیکنیکل سٹاف کو صاف شفاف ٹیسٹ انٹرویو کے ذریعے بھرتی کی جائے۔ جن اہلکاروں کی مزید تربیت کی ضرورت ہے ان کی تربیت کےلئے انتظامات کیے جائے۔ گلگت بلتستان میں کم از کم گلگت اور سکردو میں ٹیچنگ ہسپتالوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔
عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹرز صرف تنخواہوں اور مراعات کےلیے دھرنے دیتے ہیں جبکہ آبادی کے زیادہ پڑھے لکھے طبقے بھی ڈاکٹرز کو قصوروار ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ جبکہ حقائق یہ ہیں کہ گزشتہ کئی سالوں سے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن گلگت بلتستان نے سب سے پہلے مریضوں کے مسائل پہ بات کی ہے۔ جب بھی وہ سڑکوں پہ آئے ان کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ ڈاکٹرز کی کمی کو مکمل کی جائے، ادویات کی کمی سمیت ہسپتالوں میں مریضوں کےلیے دیگر سہولیات یقینی بنائے جائے۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن گلگت بلتستان کا ایک مطالبہ یہ بھی رہا ہے کہ ٹرانسفر پسند اور ناپسند کے بنیاد پہ نہ ہو بلکہ دور دراز علاقوں میں ڈیوٹیوں کےلیے سب کو باری باری بھیجا جائے۔
یہ سچ ہے کہ بیوروکریسی نے ٹرانسفرز کے معاملات میں ہمیشہ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایسے ڈاکٹرز کو میں جانتا ہوں جو ایک ہی سال میں تین سے چار دفعہ ٹرانسفر کیے جاچکے ہیں جبکہ گلگت شہر میں ایسے ڈاکٹرز بھی موجود ہے جو کئی سالوں سے ایک ہی سٹیشن پہ موجود ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور حکومت میں کئی ڈاکٹرز پاکستان کے دیگر شہروں میں ہوتے ہوئے گلگت بلتستان سے تنخواہیں لیتے رہے ہیں یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک ان کے کوئی بیوروکریسی میں موجود نہ ہو۔ اداروں میں شفافیت کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے بلخصوص محکمہ صحت میں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔
کرونا وائرس کے آنے سے لے کر اب تک گلگت بلتستان کے ڈاکٹرز، نرس اور ہیرا میڈیکل سٹاف نے گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ بیوروکریسی نے رسک الاؤنس دینے میں تاخیر کا حربہ استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل سٹاف اور نرسسز کو ذہنی طور پر شدید دباؤ میں رکھا جو کہ ان کے پیشہ ورانہ زندگی میں خلل ڈالنے کے برابر ہے۔
دوسری جانب کرونا کے روک تھام کےلئے جو فیصلے ہوتے ہیں وہ ڈاکٹرز کے مشوروں سے ہونے کے بجائے سیاسی طور پر کیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے گلگت بلتستان میں کرونا خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا اس مسئلے پر کسی اور دن تفصیل سے لکھنے کی کوشش کروں گا۔
ان چند سطور کے ذریعے ہم وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ محکمہ صحت کو درپیش مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ کوشش کی ضرورت ہے جب صحت کے ادارے بہتر طریقے سے کام کریں گے تو لاچار اور غریب طبقے جو نجی ہسپتالوں میں علاج نہیں کروا پاتے، وہ آپ کو دعائیں دینگے۔
ڈاکٹرز کے جائز مطالبات کو حل کریں اور گلگت بلتستان میں گزشتہ دنوں کے ٹیسٹ انٹرویو میں کیے گئے زیادتیوں کے ازالے کےلیے احکامات جاری کیے جائیں کیونکہ گلگت بلتستان کے میڈیکل آفیسرز سے انٹرویو لینے کے بعد گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع میں خیبر پختونخوا سے سات ڈاکٹرز بلوائےگئے ہیں جبکہ یہاں کے میڈیکل آفیسرز دوبارہ شہروں کا رخ کرنے پہ مجبور ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے علاقوں میں ڈیوٹی سر انجام دیں مگر محکمہ صحت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز چند افسران گلگت بلتستان میں میڈیکل آفیسرز کو جان بوجھ کر یہاں خدمات سر انجام دینے سے روک رہے ہیں
دوسری جانب ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن گلگت بلتستان نے کہا ہے کہ ہم گانچھے کی عوام کے اس مطالبے کی بھر پور حمایت کرتے ہیں۔
حکومت تمام اضلاع میں اسپیشلسٹ ڈاکڑوں کی تعیناتی کو یقینی بنائے۔ حکومت تمام ڈاکٹروں کے لئے یکساں پوسٹنگ ٹرانسفر پالیسی مرتب کرے تا کہ کسی بھی ڈاکٹر کے ساتھ پوسٹنگ کے نام پر انتقامی کاروائی کو جواز نا بنایا جا سکے۔ سفارش کی بنیاد پر کسی کی پوسٹنگ نا ہو بلکہ سب کے لئے انصاف پر مبنی پوسٹنگ ٹرانسفر پالیسی بنائی جائے۔
حکومت جلد از جلد وفاق سے ڈاکٹروں، نرسنگ و پیرا میڈیکل اسٹاف کی سیٹوں کی تخلیق کروائے تا کہ گلگت بلتستان میں ڈاکٹروں اور اسٹاف کی کمی کو دور کیا جا سکے۔ اسی طرح سے ہی ممکن ہے کہ تمام اضلاع میں ہسپتالوں کا نظام بہتر ہوگا۔ بصورت دیگر ایک ڈاکٹر سے دس ڈاکٹروں کی طرح کام کروایا جاتا رہے گا جو کہ نا ممکن بات ہے۔
لہذا عوام دو اہم مطالبات حکومت کے سامنے رکھے۔۔
1۔ ڈاکٹروں اور اسٹاف کی نئی آسامیوں کی تخلیق
2۔ تمام ڈاکٹروں کے لئے یکساں پوسٹنگ ٹرانسفر پالیسی
ان دو مطالبات کی تکمیل کے زریعے ہی تمام اضلاع میں صحت کے نظام کو بہتر بنایا جا سکتا ہے