Get Alerts

”کاش یہاں خواتین کیلئے کوئی الگ تھانہ ہوتا؟“

رپورٹ :(حمد نواز)”جھگڑا گھر کے اندر تھا لیکن دیور نے معاملہ تھانہ لے جانے کا فیصلہ کیا۔ میرے باپ اور بھائی کو بلایا گیا اور ایک دن کے اندر ہماری طلاق ہوگئی۔ایک ساتھ رہنا اتنا ہی نصیب میں تھا،کسی نے میری بات نہیں سنی“

یہ کہنا تھا 26سالہ شہناز (فرضی نام) کا جس کی طلاق پچھلے سال ہوئی تھی۔ شہناز کے مطابق وہ اس وقت تھانے جا کر اپنا موقف پیش کرنا چاہتی تھی لیکن گھر والوں نے اسے منع کیا کہ وہاں صرف مرد ہوں گے، کوئی خاتون اہلکار نہیں ہوگی۔

’’پھر میں نے بھی ضد چھوڑ دی کہ مردوں کو کیسے سمجھاؤں گی کہ مسئلہ اصل میں ہے کیا؟ کاش یہاں خواتین کیلئے کوئی الگ تھانہ ہوتا تو میں بلا جھجک وہاں جاسکتی تھی‘‘

صوبہ خیبرپختونخوا میں رائج معلوما ت تک رسائی کے قانون 2013 کے تحت حاصل کردہ معلومات کے مطابق ضلع ملاکنڈ میں سال 2014 سے 2019 تک 92 ایف آئی آرز خواتین سے متعلق درج کی گئی ہیں جن میں سب سے زیادہ تعداد تھانہ درگئی کی ہے جہاں 30 ایف آئی آر درج ہوئیں۔

 



ملاکنڈ لیویز کے تفتیشی انچارج صوبیدار میجر امیرزمان کے مطابق اگر خواتین کیلئے الگ تھانہ یا تھانے میں خصوصی خواتین اہلکار ہوتی تو شاید ایف آئی آرز کی تعداد مردوں کے برابر نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوتی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’یہاں خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے تو لیویز تھانوں میں کال کرسکتی ہیں نہ مرد اہلکاروں کے سامنے اپنا مسئلہ کھل کر بیان کرسکتی ہے‘‘

صوبیدار میجر امیرزمان کے مطابق اس وقت ملاکنڈ لیویز میں خواتین اہلکاروں کی تعداد صرف تین ہے جو بٹ خیلہ، درگئی کورٹ اور درگئی چیک پوسٹ پر صرف سرچنگ کی ڈیوٹی پر مامور ہیں، یعنی لیویز تھانوں میں پورے ضلع میں اس وقت کوئی خاتون اہلکار موجود نہیں۔

ضلع ملاکنڈ میں14  تھانے،6 چوکیاں جبکہ 20 چیک پوسٹیں ہیں جہاں کم ازکم 20 خواتین اہلکاروں کی اشد ضرورت ہے۔

مقامی افراد کے مطابق اگر ممکن ہو تو ضلع ملاکنڈ کی دونوں تحصیلوں یعنی درگئی اور بٹ خیلہ میں خواتین کیلئے الگ الگ تھانے بنا دئیے جائیں تاکہ خواتین کھل کر اپنے مسائل مقامی انتظامیہ اور لیویز تک پہنچا سکیں۔

ضلع ملاکنڈ میں خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی سائرہ بانو کہتی ہیں کہ ضلع بھر کی خواتین میں قانون کی آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے، یہاں تک کہ تھانوں میں موجود اہلکاروں کو بھی معلوم نہیں کہ خواتین سے متعلق صوبے میں کونسے قانون بنائے گئے ہیں اور خواتین پر کن دفعات کے تحت ایف آئی آرز درج کی جاسکتی ہیں۔

 



سائرہ بانو کہتی ہیں’’یہ کیسے ممکن ہے کہ سات لاکھ آبادی والے ضلع میں خواتین پر تشدد کے واقعات سامنے نہ آئیں، تشدد ہوتا ہے، ضرور ہوتا ہے لیکن کیسزرپورٹ نہیں ہوتے، 99 فیصد خواتین کو معلوم ہی نہیں کہ یہاں پر تھانہ کہاں واقع ہے اور تھانوں میں کیا کچھ ہوسکتا ہے‘‘

سائرہ بانو کے مطابق سال 2017 میں یو این ڈی پی کے تعاون سے جب ماڈل تھانے بنائے جارہے تھے تو ملاکنڈ انتظامیہ سے اس بارے میں بات بھی ہوگئی تھی کہ ان تھانوں میں زیادہ سے زیادہ خواتین کو بھرتی کیا جائیگا لیکن بدقسمتی سے ابھی تک بھرتی کا عمل بھی شروع نہیں ہوا اور نہ ہی زیر غور ہے۔

ضلع ملاکنڈ میں خواتین کے بڑے مسائل خودکشی، گھر سے بھاگنے کے بعد لاپتہ ہونا، گھریلو تشدد اور کام کی جگہوں پر ہراسانی سرفہرست ہیں۔

تھانوں میں موجود مرد اہلکاروں کی تربیت بارے ملاکنڈ لیویز کے تفتیشی انچارج صوبیدار میجر امیرزمان کہتے ہیں کہ یہاں پر خواتین کی تفتیش کے حوالے سے کوئی تربیت نہیں دی جاتی حالانکہ ضلع ملاکنڈ میں خواتین کی تعداد مردوں کے برابر ہے

ملاکنڈ میں خواتین کو درپیش مسائل کے قانونی پہلوؤں کے بارے میں ایڈووکیٹ آمنہ کہتی ہیں کہ خواتین کے متعلق بہت کیسز آتے ہیں، خواتین شعور کی کمی کی وجہ سے بغیر ایف آئی آر کئے ہمارے پاس آجاتی ہیں۔ پھر انہیں سمجھانا پڑتا ہے کہ قانون میں ان کیلئے کہاں کہاں تحفظ موجود ہے۔

لیویز کے پاس خواتین کے زیادہ تر کیسز کریمنل نوعیت کے ہوتے ہیں، تھانوں میں خاتون اہلکار نہ ہونے کی وجہ سے جنسی ہراسگی اور ریپ کے کیسز میں بھی مرد اہلکار ہی تفتیش کریں گے۔

ایڈووکیٹ آمنہ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران ان کے پاس خواتین سے متعلق کوئی کیس نہیں آیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سوات ماڈل تھانہ میں جس طرح خواتین کیلئے الگ جگہ اور خاتون اہلکار موجود ہے، اسی طرح اگر ملاکنڈ میں بھی بنا دیئے جائیں تو خواتین سے متعلق کیسز کی نوعیت بدل جائیگی۔

نفسیاتی طور پر ایک خاتون اپنے متعلق کیسز کو کس طرح بیان کرے گی؟ اس سوال کے جواب میں جامعہ ملاکنڈ کے شعبہ نفسیات کے استاد توصیف خان کہتے ہیں کہ جس طرح مردوں کی ضروریات ہوتی ہیں، ہمارے معاشرے میں مرد عدالت، ہسپتال اور پولیس سٹیشن جاسکتا ہے مگر خواتین نہیں۔ اسی ذہنیت کے ساتھ ہم نے بچوں کی بھی تربیت کی ہوئی ہے کہ معاشرے میں خواتین کیلئے کچھ پابندیاں ہیں۔



میرے خیال میں برا وقت سب پر آتا ہے اور وقت جنس کو نہیں دیکھتا، جب کسی خاتون پر برا وقت آتا ہے تو کیا مرد و خواتین کی تربیت ایک جیسی ہوتی ہے؟ توصیف خان کے مطابق ان کے پاس کونسلنگ کیلئے بے شمار لوگ آتے ہیں لیکن کسی خاتون نے کبھی بھی اپنا مسئلہ100فیصد بیان نہیں کیا۔

 اسلئے مجبوراً انہیں کسی خاتون نفسیاتی ماہر کو بھیج دیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق ایسا ممکن ہی نہیں کہ موجودہ معاشرتی تربیت کے بعد ایک خاتون اپنے حق کیلئے پولیس سٹیشن جائے۔اگر کسی پولیس سٹیشن میں کوئی خاتون اہلکار ہی نہیں تو ایک خاتون مرد اہلکار کے سامنے مسئلہ کیسے بیان کرے گی، یہی وجہ ہے کہ خواتین یہاں پر پولیس سٹیشن جانے سے گریز کرتی ہیں۔

حکام کے مطابق 2017 میں یو این ڈی پی کے تعاون سے پورے صوبے میں 62 ماڈل تھانے تعمیر کیے گئے جن میں بہترین خدمات اور سہولیات کے ساتھ ساتھ عمارت، تزئین و آرائش اور تربیت یافتہ عملے کے علاوہ خواتین کیلئے خصوصی ڈسٹرکٹ یا لیڈیز رپورٹنگ سنٹر کا قیام شامل تھا لیکن ضلع ملاکنڈ میں چار ماڈل تھانوں میں خواتین کیلئے ایسی کوئی سہولت موجود نہیں۔

خواتین لیویز تھانوں میں کال کرسکتی ہیں نہ مرد اہلکاروں کے سامنے اپنا مسئلہ کھل کر بیان کرسکتی ہے۔ ایک خاتون مرد اہلکار کے سامنے اپنا مسئلہ کیسے 100 فیصد بیان کرے گی؟