پاکستان ٹیلی ویژن کا ڈرامہ جس نے ایک وقت میں دنیا کے ہر اس خطے میں مقبولیت حاصل کی اور اپنا سکہ منوایا جہاں جہاں اُردو زبان بولی پڑھی لکھی اور سمجھی جاتی تھی۔ ایک وقت تھا جب پاکستان کے پانچ بڑے ٹیلی ویژن مراکز کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ سے ہفتے میں پانچ روز رات 8 بجے ڈرامے نشر ہوتے تھے اور ایک صحت مند مقابلے اور مسابقت کی فضا قائم ہوتی تھی۔ پھر ہر سال پی ٹی وی ایوارڈز کا اجرا کیا جاتا تھا جس میں ریاستی سطح پر فنکاروں کا ہنر تسلیم کیا جاتا تھا۔
وہ پاکستان ٹیلی ویژن کا سنہرا دور تھا۔ جب کراچی سے شعیب منصور، محسن علی، شہزاد خلیل ٹی وی ہدایت کار جبکہ عبدالقادر جونیجو، نور الہٰدی شاہ جو دیہی سندھ اور فاطمہ ثریا بجیا، حسینہ معین شہری سندھ سے تعلق رکھنے والے ڈرامہ نگار تھے۔ فنکاروں میں شکیل، طلعت حسین، شفیع محمد شاہ، بہروز سبزواری، ہمایوں سعید، عدنان صدیقی، خالدہ ریاست، طاہرہ نقوی، سلیم ناصر، ثانیہ سعید، مشی خان اور بشریٰ انصاری جیسے فنکاروں کا جھرمٹ تھا۔
لاہور میں یاور حیات، ایوب خاور، راشد ڈار، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، امجد اسلام امجد، یونس جاوید، قوی خان، توقیر ناصر، وسیم عباس، فردوس جمال، نعمان اعجاز، صبا حمید، روبینہ اشرف، سویرا ندیم اور شاہد محمود ندیم جیسے ستارے تھے۔ اسلام آباد میں شاکر عزیز، احمد عقیل روبی، افضل خان (جان ریمبو)، خالد حفیظ اور طارق ملک تھے۔ پشاور میں ڈاکٹر ڈینس ایزک، نجیب اللہ انجم اور رشید ناز جبکہ کوئٹہ سے سجاد احمد، عاشر عظیم، ایوب کھوسہ اور حسام قاضی تھے۔ یہ ایک ایسی کہکشاں تھی جو پاکستان ٹیلی ویژن کے آسمان پر چمک رہی تھی۔
اگرچہ اس دور میں فنکاروں کا معاوضہ کم تھا مگر کام بہت معیاری ہو رہا تھا۔ پھر پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کا دور آیا۔ فنکاروں کے معاوضوں میں بہت اضافہ ہوا جو بہت خوش آئند تھا۔ ٹی وی ڈرامے کا دائرہ پھیلا۔ موضوعات میں مزید تنوع آیا۔ جو بات سرکاری ٹیلی ویژن پر نہیں ہو سکتی تھی وہ نجی ٹی وی چینل پر ہونے لگی۔ اب ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ اس بات کا مثبت اثر لیا جاتا اور سرکاری ٹیلی ویژن بھی جدید طرز پر پروڈکشن شروع کر دیتا، ڈرامے کی عکسبندی سٹوڈیو سے نکل کر آؤٹ ڈور ہو جاتی، دیگر تکنیکی امور کو بہتر کیا جاتا مگر سرکاری ٹیلی ویژن کی نوکر شاہی نے اس سے یکسر الٹ فیصلہ کیا جس نے سرکاری ٹیلی ویژن ڈرامے کو ختم ہی کر دیا۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے پانچوں مراکز سے ڈرامے بننے بند ہو گئے اور سرکاری ٹیلی ویژن نے ڈرامہ نجی کمپنی سے خرید کر چلانا شروع کر دیا۔ یہ ایسا فیصلہ تھا جس نے اردو ڈرامے کی نرسری یعنی سرکاری ٹیلی ویژن کو ختم کرکے رکھ دیا اور پی ٹی وی کی سکرین اوریجنل ڈرامے سے محروم ہو گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرکاری ٹیلی ویژن جو اشتہارات ٹی وی ڈرامے کے ذریعے حاصل کرتا تھا وہ ختم ہو گئے۔ مجبور ہو کر پھر ترک ڈرامے چلانے پڑے جس سے کروڑوں روپے کے اشتہارات ملے۔ اب ہمارے ارباب اختیار اور شتر بے مہار نوکر شاہی کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہئیے اور سرکاری ٹیلی ویژن سے ڈرامہ دوبارہ شروع کرنا چاہئیے۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔