جب ہم نے پی ٹی وی جوائن کیا تو کچھ ہی عرصے کے بعد یہادارہ ہمارے لئے ایک رومانس بن گیا۔ بطور پروڈیوسر جب بھی ہم کوئی پروگرام کرتے تو آئیڈیا کنسٹرکشن سے لے کر فائنل پروڈکشن تک ہمیں ہر شعبے کے تجربہ کار لوگوں سے تخلیقی بحث کرنا پڑتی، کبھی ہم اپنی منواتے تو کبھی ہمیں ان کی ماننی پڑتی۔ کبھی کبھار یہ پروسس بڑا تکلیف دہ ہوتا لیکن اکثر اوقات ہمارے لئے لرننگ کا باعث بنتا۔ یہی وجہ ہے کہ اتنا عرصہ پردیس میں رہنے کے باوجود آج بھی پی ٹی وی کے ہر شعبے کے پروفیشنلز سے رابطہ رہتا ہے اور پی ٹی وی کے مسائل پر بھی بات ہوتی رہتی ہے۔
کچھ مسائل تو ہمارے دور سے ہی شروع ہو چکے تھے لیکن تب ٹائٹینک لہروں کا مقابلہ کر رہا تھا پانی جہاز میں داخل نہیں ہوا تھا لیکن اب جو صورتحال ہے اسے دیکھتے ہوئے پی ٹی وی سے باہر بیٹھے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پی ٹی وی وسائل سے مالا مال ہے , اس کے پاس بہت بڑے بڑے سٹوڈیوز اور معیاری تکنیکی سہولتیں دستیاب ہیں اس کے باوجو خاطر خواہ نتائج موصول نہیں ہوتے۔
حقیقی طور پر صورتحال انتہائی مختلف ہے۔ پاکستان ٹیلی وثرن کے بنیادی طور پر دو بڑے اور فوری حل طلب مسائل ہیں
ایک طویل مدت سے پی ٹی وی کو تکنیکی طور پر عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کیا گیا۔
وہ مشینری استعمال ہو رہی ہے جو تقریباً متروک ہو چکی ہے
بڑے بڑے سٹوڈیوز میں متروک ہوتی مشینری آخری سانسیں لے رہی ہے حتی کہ موسمی درجہ حرارت کنٹرول کرنے کے لیے اکثر اے سی تک کام نہیں کرتے۔
پی ٹی وی بنیادی طور پر آرٹ کلچر اور قومی تشخیص کی نمائندگی کرتا ہے فنکاروں گلوکاروں سازندوں غرض کہ مذہب ادب اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والوں کو فروغ دینا اور ان کا کچن چلانا پی ٹی وی کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
ایک وقت تک پی ٹی وی یہ ذمہ داری بہ احسن سرانجام دیتا رہا۔ صبح سے رات گئے تک ہر شعبے کے تخلیق کاروں کا پی ٹی وی میں آنا جانا لگا رہتا تھا ۔ جس سے سکرین کا کام بھی تازہ رہتا تھا اور تخلیق کاروں کو معاشی فکر سے بھی بڑی حد تک بے فکری رہتی تھی۔
اب صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی وی کی گلیاں تو سو نجی ہو چکی ہیں اور ظلم یہ کہ مرزا یار بھی لا تعلق ہے ۔ ڈرامہ آرٹسٹ ہو یا موسیقی کے شعبے کا کوئی ہنر مند ، شاعر ہو یا ادیب کوئی ادھر کا رخ نہیں کرتا۔
بڑے بڑے نام تو پرائیویٹ شعبے سے روزی روٹی کر لیتے ہیں لیکن چھوٹے کردار کرنے والا آرٹسٹ ، ایکسٹرا ، موسیقار ، سازندہ اور شاعر ادیب قاری نعت خواں ، اور قوال بے روزگاری بھوک افلاس کی دَلدل میں دھنستا جا رہاہے ۔
ان تمام مسائل کا ایک ہی حل ہے کہ ٹی وی میں پروگرامنگ پھر سے شروع کی جائے اور یہ پروگرامز صرف ایک آدھ ڈرامے تک محدود نہ ہو بلکہ ماضی کی طرح موسیقی ، ڈاکومنٹری بچوں کے پروگرام ، ادبی و مذہبی اور علمی نوعیت کے پروگرامز کو برابر توجہ دی جائے اور اسی طرح کے پروگرامز علاقائی زبانوں میں بھی دوبارہ سے شروع کیے جائیں ۔
کیونکہ صرف اسی صورت میں ہی سٹیٹ چینل اپنی ذمہ داری نبھا سکتا ہے