'شہباز شریف کی گرفتاری کی کوشش': عمران خان سیاسی شکست تسلیم کر چکے

'شہباز شریف کی گرفتاری کی کوشش': عمران خان سیاسی شکست تسلیم کر چکے
اور اب شہباز شریف کی گرفتاری کی کوششیں۔ ایک بار پھر۔ آخر کسی سیاسی معاملے کا جواب خان صاحب کے پاس سیاسی کیوں نہیں ہوتا؟ قانون بنانا ہے، صدر عارف علوی کو کہہ کر آرڈیننس پاس کروا لو۔ آئینی ترمیم ضروری ہوئی تو پہلے تو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل فیض حمید صاحب مل کر اپوزیشن کو بلا کر انہیں بریف کر دیا کرتے تھے اور پھر اپوزیشن مجبور و بے بس بل کے حق میں ووٹ دے دیا کرتی تھی۔ جب پی ڈی ایم بالآخر ستمبر 2020 میں بن گئی اور اس کے پلیٹ فارم سے فوج کے دو سینیئر ترین عہدیداروں پر اپوزیشن سیاستدانوں سے ملاقاتوں کے حوالے سے تنقید ہوئی تو یہ کام تو ختم ہو گیا لیکن حکومتی اراکین اور اتحادیوں کو البتہ ضرور فون کالز آتی رہیں۔ سینیٹ میں چیئرمین کے انتخاب کے موقع پر تو نام لے کر کہا گیا کہ کس افسر نے کس اپوزیشن سینیٹر کو فون کر کے کہا ہے کہ حکومتی امیدوار کے حق میں ووٹ دے۔ ابھی دسمبر تک بھی قانون سازی کچھ اسی انداز سے کی جا رہی تھی۔ حکومتی ایم این اے آ کر ٹی وی کیمراز کے سامنے کہہ رہے تھے کہ ہم آئے نہیں ہیں، لائے گئے ہیں۔

جب پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اسٹیبلشمنٹ اور عمران حکومت کی قربت پر تنقید کی جانا شروع ہوئی تو یکایک نیب حرکت میں آئی اور شہباز شریف اور خواجہ آصف جیسی آوازوں کو پابندِ سلاسل کر دیا گیا جن سے امید کی جا سکتی تھی کہ اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پل کا کردار ادا کریں گے۔ خان صاحب کی خواہش تھی کہ اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ میں دوریاں برقرار رہیں تاکہ ان کے علاوہ کوئی اور اسٹیبلشمنٹ کے لئے آپشن نہ بن سکے۔ اپنے تمام مخالفین کو خاموش کروانے کے لئے عمران خان حکومت میں ملکی اداروں کو بلا تامل استعمال کیا گیا۔ ایف آئی کے سابق سربراہ بشیر میمن ریکارڈ پر ہیں کہ ان کو بلا کر اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف کیسز بنانے کے لئے کہا گیا تھا۔ اور ان کے انکار پر وزیر اعظم ان سے ایسے ناراض ہوئے کہ ان کو ریٹائرمنٹ سے کئی ہفتے قبل ہی جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا۔ وہ تمام کیسز جو بشیر میمن کے بقول انہوں نے بنانے سے انکار کیا تھا، پھر نیب کے ذریعے بنے اور ان سب میں اپوزیشن رہنماؤں کو قید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ بھی یاد رہے کہ انتخابات سے قبل بھی ان کے مخالفین عدالتوں سے نااہل ہوئے تو ہی ان کے لئے فتح کی راہ ہموار ہو سکی تھی۔ اس وقت بھی 'محکمۂ زراعت' کے کچھ عہدیداروں کو متحرک کر کے اپوزیشن ٹکٹ ہولڈرز کو ٹکٹ چھوڑنے کے احکامات دیے جاتے تھے۔ کچھ کو تو مارنے پیٹنے کی شکایتیں بھی آئیں۔ آر ٹی ایس سسٹم بند کرنا، صحافیوں کو پولنگ سٹیشنز سے نکالنا، پولنگ ایجنٹس کو پولنگ سٹیشنز سے نکالنا، اور پھر الیکشن کے بعد دوبارہ ووٹوں کی گنتی کی درخؤاستیں رکوانا، یہ سب انتظامی و عدالتی ہتھکنڈے تھے، سیاسی نہیں۔ انہی کی بدولت عمران خان صاحب اقتدار میں آئے۔

اب اپوزیشن ان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کے لئے متحرک ہوئی ہے تو بھی عمران خان صاحب کا جواب سیاسی نہیں ہے۔ ایک طرف وزیرِ داخلہ فرماتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ہمارے ساتھ ہے تو دوسری طرف شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کے خلاف فوری طور پر فردِ جرم عائد کر کے ان کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ یہ بھی سیاسی جواب نہیں۔

90 کی دہائی میں یقیناً احتساب کے نام پر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ یہ سب کرتی رہی ہیں لیکن جنرل مشرف کے دور کے اختتام تک یہ بڑی جماعتیں سمجھ چکی تھیں کہ انہیں ایک دوسرے کو دبانے کے لئے سیاسی فیصلے کرنا ہوں گے، گرفتاریاں اور مقدمات اس کا حل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی دور میں لانگ مارچ بھی ہوئے اور دھرنے بھی دیے گئے لیکن حکومت نے مخالفین کو جیلوں میں بھرنے کا کام نہیں کیا۔ 2009 کے لانگ مارچ سے قبل گورنر راج لگایا گیا، کچھ اہم لیڈران کو گھروں میں نظر بند کرنے کی بھی کوشش کی گئی لیکن ان پر جھوٹے سچے مقدمات نہیں بنائے گئے۔ نواز شریف دور میں بھی مخالفین پر مقدمے دائر ہوئے لیکن گرفتاریاں عمل میں نہیں لائی گئیں۔ مثلاً عمران خان صاحب ںے پولیس تھانے میں گھس کر بلوائی چھڑا لائے، یا عارف علوی نے ان کو فون کر کے بتایا کہ پی ٹی وی دفتر پر ہمارے کارکنان کا قبضہ ہو گیا ہے تو ان پر مقدمات قائم ہوئے۔ لیکن یہ مقدمات کئی کئی سال چلتے رہے، کسی کو جیل میں ایک دن بھی نہیں گزارنا پڑا۔ اس ریت کو پاکستانی سیاست کا حصہ عمران خان ہی نے ایک بار پھر بنایا ہے اور یہ سیاسی اندازِ حکمرانی نہیں۔

عمران خان صاحب کو چاہیے کہ وہ مخالفین کو سیاست کے ذریعے زیر کرنے کی کوشش کریں۔ جس طرح وہ حکومت کر رہے ہیں، یہ فسطائی ہتھکنڈوں کے زمرے میں آتا ہے اور اس سے کچھ دیر کے لئے ضرور وہ اپنے مخالفین کو راستے سے ہٹا سکتے ہیں لیکن عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کا نہ تو یہ طریقہ ہے اور نہ ہی اس کے کامیاب ہونے کا کوئی امکان ہے۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.