وزراء کو کارکردگی ایوارڈز دینا حکومت کیلئے مصیبت بن گیا، وزارتوں کی کارکردگی تسلیم نہ کرنے پر اتحادی جماعتوں نے بھی تحفظات کا اظہار کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم کی جانب سے کارکردگی کی بنیاد پر 10 سرفہرست وزارتوں کو اعزاز سے نوازنے پر اتحادی جماعتوں اور وفاقی کابینہ کے وزرا نے تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔
انگریزی اخبار ڈان رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ 10 وزارتوں کی بہترین پرفارمنس کے اعلان اور فرنٹ لائن وزارتوں کو فہرست سے نکالنے کے بعد حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صفوں میں تلخیاں پیدا ہوگئی ہیں۔
جن وزارتوں کو فہرست میں شامل نہیں کیا گیا ان میں خارجہ امور، خزانہ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ہاؤسنگ، انفارمیشن اور ماحولیات شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق 2 حکومتی اتحادیوں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان اور پاکستان مسلم لیگ (ق)، جن کے پاس بالترتیب آئی ٹی اور ہاؤسنگ کی وزارتیں ہیں، انہوں نے کارکردگی دکھانے کے باوجود تسلیم نہ کیے جانے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے وزارت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ’نمایاں‘ کارکردگی تسلیم نہ کرنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حکومت نے آئی ٹی کی وجہ سے ہی برآمدات میں ریکارڈ ریونیو حاصل کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے حال ہی میں متعدد بار وزارت آئی ٹی کی کارکردگی کو سراہا تھا۔
خالد مقبول صدیقی نے احتجاجاً کہا کہ ’ایم کیو ایم نے آئی ٹی کی برآمدات میں 50 فیصد اضافہ کیا ہے لیکن ہم سرفہرست 10 وزارتوں میں کہیں نہیں ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی کارکردگی جانچنے کے لیے میڈیا یا عوام کے ذریعے سروے کروانا چاہیے، نہ کہ حکومت کو خود سروے کرنا چاہیے۔
پاکستان مسلم لیگ (ق) میں موجود ذرائع نے بتایا کہ پارٹی کے ایک قانون ساز کے پاس ہاؤسنگ کی وزارت ہے، وزیر اعظم کی جانب سے ان کی کارکردگی تسلیم نہ کرنے پر پی ایم ایل (ق) بھی ناخوش ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ وزارت نے وزیر اعظم کی خواہش کے مطابق لوگوں کو سستی ہاؤسنگ سہولیات فراہم کرنے کے ہدف تک پہنچے کے لیے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
اسی طرح ماحولیات کی وزارت کا کہنا ہے کہ 10 ارب درختوں کے سونامی کا پروگرام شروع کرنے کے باوجود بھی وزارت کو بہترین کارکردگی کا ایوارڈ دینے پر غور نہیں کیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ’ناخوش وزرا نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے ان کی ’بھرپور کارکردگی پر غور نہیں کیا‘۔
وزارت خارجہ کا ماننا ہے کہ انہیں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اجلاس منعقد کروانے پر بھی نہیں سراہا گیا، اس کا اہتمام مختصر وقت کی اطلاع پر کیا گیا تھا اور اس میں طالبان کی جانب سے گزشتہ سال اگست کے وسط میں افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد پاکستانیوں اور دیگر غیر ملکیوں کو وہاں سے نکالنے کا مسئلہ زیر غور لایا گیا تھا۔
علاوہ ازیں وزارت اطلاعات کو افریقہ میں 60 پریس اتاشیوں کے تقرر کے منصوبے پر عمل در آمد نہ کرنے کے باعث منفی کارکردگی والی وزارتوں میں شامل کیا گیا۔
وزیر اطلاعات نے اس منصوبے کو وسائل کا ضیاع سمجھتے ہوئے چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ گھانا اور یوگینڈا جیسے ممالک میں ایسے افسران کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ وزارت نے ان میں سے کچھ ریاستوں میں ثقافتی اتاشی کے تقرری کی تجویز پیش کی تھی۔
ذرائع نے کہا کہ کچھ وزرا اس بات پر بھی ناخوش ہیں کہ وزارت داخلہ کو محض 40 ہزار پاسپورٹ کے اجرا پر سرفہرست 10 وزارتوں میں شامل کیا گیا ہے، انہیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ پاسپورٹ کا اجرا ’معمول کا معاملہ‘ ہے۔
وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا رابطہ کرنے پر کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے طریقہ کار سے آگاہ نہیں کیا گیا جس کے نتیجے میں کچھ وزارتوں کی کارکردگی کو تسلیم نہیں کیا جاسکا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ سروے وزارتوں کی نو ماہ کی کارکردگی کی بنیاد پر کیا گیا جس میں یہ غور کیا گیا کہ کونسی وزارت، سرکاری محکموں میں مقررہ ہدف پورا کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
دوسری جانب وزیر اعظم کے معاون خصوصی ارباب شہزاد نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ رپورٹ کی مخالفت کرنا شاہ محمود قریشی کا حق ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دستاویزات، دستیاب اعداد و شمار کے مطابق تیار کی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ شاہ محمود قریشی سمجھتے ہیں کہ ان کی وزارت سرفہرست ہونی چاہیے اور یہ سوچنا ان کا حق ہے، لیکن جو کچھ ہم نے رپورٹ میں درج کیا ہے کہ یہ سب ان اعداد و شمار پر مبنی ہے جو ہمیں موصول ہوئے۔