لاہور کے تاریخی ورثے کی پامالی اور کامران لاشاری

لاہور کے تاریخی ورثے کی پامالی اور کامران لاشاری
تاریخی ورثوں کے ساتھ کھلواڑ کا آغاز پرویز مشرف کی حکومت کے دور میں ہوا اور فنون لطیفہ کے دلدادہ مشرف کو سول بیوروکریسی سے مل جانے والے "نو رتنوں" نے پروان چڑھایا۔

مغلیہ دور کی عظیم یادگار قلعہ لاہور جو " شاہی قلعہ" کے نام سے مشہور ہے، دو روز قبل اس کے بعض اہم حصوں کو ایک صنعتکار کے بیٹے کی شادی کے بینکوئٹ ہال کے طور پر استعمال کرنے کا شرمناک واقعہ "نو رتنوں" کی اسی ٹیم  کے ایک مرکزی رکن کے عہد میں پیش آیا، جو فن و ثقافت کے دلدادہ پرویز مشرف کے دورہ لاہور کے لئے ان کی تفریح طبع کا سامان کرنے میں سہولت کار ہوتے تھے۔

آج اتفاق سے وہی کامران لاشاری لاہور کی تاریخی عمارتوں کی رکھوالی کے انچارج یعنی بطور ڈائریکٹر جنرل والڈ سٹی اتھارٹی تعینات ہیں۔ موصوف کو اگرچہ ماضی میں بطور ڈپٹی کمشنر لاہور پہلی آفیشل فوڈ سٹریٹ قائم کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ مگر، صحیح معنوں میں ان کی صلاحیتیں پرویز مشرف دور میں کھل کر سامنے آئیں، جب انہوں نے بطور ڈی جی پنجاب ہارٹی کلچر اتھارٹی (پی ایچ اے) اپنی خداداد صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ موصوف نے نہ صرف لبرٹی مارکیٹ کے چوک کو ایک خوبصورت گول پارک میں تبدیل کیا بلکہ وہ سابق صدر مملکت کی لاہور آمد پر نوجوان حسیناؤں کو بگھی پہ بٹھا کر بگ باس کا سواگت کرواتے تھے۔ اسی طرح والڈ سٹی میں واقع کسی تاریخی حویلی کی چھت پر بگ باس کے بسنت منانے کے لئے پریوں کا جھرمٹ لگا دیتے تھے۔

لاشاری صاحب کو سرکاری املاک نجی شعبے کے تصرف میں دینے کا خاصا تجربہ ہے۔ انہوں نے فیروز پور روڈ پر کلمہ چوک سے لبرٹی کی طرف جانے والی سڑک کے آغاز پر واقع کمیونٹی پارک کو اپنے ایک پرائیویٹ دوست کے حوالے کیا جس نے ایک بینک کے تعاون و اشتراک سے اسے کمرشل ایریا میں تبدیل کیا۔ اسی دوست کے ذریعے موصوف نے اسلام آباد میں اپنی پوسٹنگ کے دوران ایک پبلک پارک کو غیر قانونی طور پر مارکیٹ میں تبدیل کرنے کا پراجیکٹ شروع کرا دیا تھا جسے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی زیر قیادت سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے رکوایا اور موصوف اور اس کے ساتھیوں کے خلاف مقدمہ درج کروایا، اور ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کروائے۔ اس بحرانی صورتحال میں موصوف نے صدر آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت کی مدد سے راتوں رات سندھ میں پوسٹنگ کروا کر کراچی میں پناہ لے لی تھی۔

موصوف نے اپنے اسی نوجوان فرنٹ مین اور دوست کو ڈی ایچ اے لاہور کے ایک بلاک کے پبلک پارک میں سوئمنگ پول سمیت جدید گیمز نصب کروا کر اسے کمرشل سرگرمیوں کے ایک جدید مرکز میں تبدیل کرنے کے پراجیکٹ پر کام شروع کروایا، اور اسے اپنی ٹیم کے ساتھ گورنر پنجاب خالد مقبول کے پاس منصوبے کی پریزینٹیشن دینے کے لئے بھجوا دیا۔

لاشاری صاحب کا قریبی دوست یعنی مذکورہ نوجوان ایک ڈویلپر کے طور پر گورنر ہاؤس کے ایک کانفرنس روم میں پراجیکٹ کی بریفنگ دے رہا تھا، اس نے منصوبے کے تحت مجوزہ recreational پارک میں نصب کی جانے والی ایک جدید گیم کی demonstration کے لئے جب مصنوعی گن نکال کر assemble کی تو فوجی گورنر قدرے پریشانی اور طیش کے عالم میں دھاڑا ''یہ گن اندر کیسے آئی؟ یہ گورنر ھاؤس کے اندر کیسے آئی؟؟" گورنر کے ملٹری سیکرٹری اور سیکیورٹی سٹاف نے دوڑ کر مصنوعی گن اپنے قبضے میں لے لی۔ یہ الگ بات کہ حاضر سروس گورنر کو باور کروایا گیا کہ یہ ایک نقلی بندوق ہے، جیسے کوئی toy gun ہوتی ہے اور یہی گن زیر بحث "تفریحی پارک" میں نصب کی جانے والی مجوزہ گیم کا محور ہو گی۔ مگر، گورنر کے غضب ناک تیور میٹنگ میں سناٹا طاری کر چکے تھے۔