پاکستان پیپلز پارٹی کے سئنیر رہنما اور سابقہ چئیرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے سینیٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بد قسمتی سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پارلیمان مر چکا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ حکومت ان مسائل پر اس ایوان میں گفتگو کرنا چاہتی ہے نہ اس ایوان کو سنجیدہ لیتی ہے۔ پورا ملک تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اور سامنے آیا کہ پاور سیکٹر کس طرح کرپشن کر رہا ہے۔ بیوروکریسی کی اجارہ داری کھل کر سامنے آگئی ہے اور حکومت کو چاہیے تھا کہ اس معاملے ہو ایک پالیسی بیان دیتی۔ اس کی وجوہات سامنے لاتی مگر اس معاملے پر کچھ نہیں ہوا اور نہ ہی کسی بڑے افسر کے خلاف کوئی ایکشن لیا گیا۔
دوسری طرف چھوٹے ملازمین کو معطل کر دیا گیا اور واقعے پر مٹی ڈالنے کی کوشش بھی کی گئی. رضا ربانی نے مزید کہا کہ بیان کو چھوڑیے اس معاملے پر کوئی انکوائری بھی نہیں کی گئی جبکہ ایک محکمانہ انکوائری کر کے جان چھڑائی گئی۔
رضا ربانی نے کہا کہ نیپرا نے انکوائری شروع کی مگر حکومت نے تکلیف نہیں کی اور گدو پاور پلانٹ کو چلانے والی کمپنیاں بغیر سی ایس اوز کے سالہا سال سے کام کر رہی ہیں. این پی ڈی سی کا مینیجنگ ڈائریکٹر پچھلے تین سالوں سے تعینات نہیں ہوا اور 10 میں سے دس ڈسکوز کی نجکاری کی جا رہی ہے۔ رضا ربانی نے کہا کہ ڈسکوز کی لیبر یونینز کا ریفرنڈم سنگل باڈی کا ہوتا ہےمگر یہ حکومت ہر ڈسکو کا الگ ریفرنڈم کرانا چاہتی ہے. حکومت بلیک آؤٹ کے معاملے کو متعلقہ کمیٹی کے سامنے بھیجے تاکہ اصل حقائق سامنے آئیں۔ رضا ربانی نے عمر ایوب کو مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا.