سندھ میں خواتین امیدواروں سے تضحیک پر مبنی رویہ کیوں رکھا جاتا ہے؟

عورت کا اس سماج میں سیاست کرنا مشکل عمل ہے جبکہ مڈل کلاس خاتون ہو کر سیاست کرنا سب سے مشکل کام ہوتا ہے۔ وہ مردوں کی سوچ کو چیلنج کرتی ہیں۔ ہم اس معاشرے کا حصہ ہے جہاں الیکشن میں صرف ایلیٹ طبقہ ہی حصہ لے سکتا ہے۔ وہ کسی نواب، سردار، وڈیرے کا بیٹا یا بیٹی ہو تو ہی کامیاب ہوسکتا ہے۔

سندھ میں خواتین امیدواروں سے تضحیک پر مبنی رویہ کیوں رکھا جاتا ہے؟

فروری میں ہونے والے عام انتخابات میں اس بار سندھ بھر سے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی چند ایسی بہادر خواتین بھی سیاسی میدان میں روایتی مرد سیاست دانوں، وڈیروں اور جاگیرداروں کا مقابلہ کرتی دکھائی دیں گی جو سندھ کے شعور میں اپنے سماجوں کاموں کی وجہ سے پہلے ہی مشہور ہیں لیکن چونکہ وہ بہادر خواتین ہیں۔ اس لیے انتخابی دنگل سجنے سے قبل ہی ان کے خلاف سوشل میڈیا سمیت سیاسی جلسوں میں نامناسب زبان استعمال کرکے ان کی کردار کشی کیے جانے کا امکان ہے۔

پاکستان میں انتخابات سے قبل کئے جانے والے جلسے جلوسوں اور کارنر میٹنگز میں سیاست دان اصلاحات،مستقبل کے حوالے سے حکمت عملی اور وہ منصوبہ بندی یا پراجیکٹ پربات نہیں کرتے کہ ہم آئے تو یہ بدل دیں گے بلکہ وہ ایک دوسرے کے بارے میں متنازعہ بیانات ،غیرشائستہ زبان کا استعمال، الزام تراشی،ایک دوسرے کا تمسخر اڑاتے ہیں ۔

اس روایتی معاشرے میں جب کوئی خاتون امیدوار انتخابات میں مرد کے مد مقابل کھڑی ہوتی ہے تو پھر سب سے پہلے اس کی کردار کشی کی جاتی ہے نازیبا الفاظ کا استعمال کیا جاتا اور تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔

کسی مرد سیاست دان کو کسی دوسرے سیاست دان مرد کی گاڑی، گھڑی،شکل ،عقل ہیئر ٹرانس پلانٹ یا خفیہ شادی پر تنقید کرتے دیکھا ہے۔ اگر تنقید کی بھی جاتی ہے تو کبھی کسی کو صاحبہ پکار کر پھر انہیں چوڑیاں پہننے کے مشورے دے کر انہیں خواتین میں شمارکرکے ان کی تذلیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔لیکن یہ عمل خواتین کے معاملے  میں بہت شدت اختیار کر جاتا ہے جنہیں کسی طور نہ تسلیم کیاجاتا ہے اور نہ ان سے بات کرنے کےاخلاقی طریقے اختیار کئے جاتے ہیں ۔

صنف کی بنیاد پر تفریق کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی ان کی مقبولیت کام اور صلاحیتوں کو بے وقعت کرنے کی مہم چلائی جاتی ہے۔یہ صنفی تضحیک اور تحقیر جاگیردارنظام، وڈیرہ شاہی، نواب سردار سوچ کی عکاس ہے جس میں اقتدار نسل در نسل منتقلی کا تسلسل دکھائی دیتا ہے۔

عروسہ لاشاری کا تعلق ٹھل سے ہے۔ پیشے کے لحاظ سے وہ نوجوان وکیل ہے۔روایتی اور فرسودہ نظام کے خلاف ہیں اور تبدیلی، ترقی اور بہتری پر یقین رکھتی ہیں ۔عروسہ نےعام انتخابات 2014 میں پہلی بار حصہ لیا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے ٹکٹ پر پی ایس 2ٹھل سے انتخابات  لڑ رہی ہیں ۔کہتی ہے کہ روایتی نظام میں کسی نواب سردار کے مد مقابل الیکشن لڑنے کا سوچنا بھی ہمارے یہاں مشکل عمل سمجھا جاتا ہے ۔ہمارے یہاں کسی مرد کے مقابلے میں انتخابات لڑنے کا فیصلہ مشکلات اور پریشانیوں کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ہرقسم کی طاقت کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہےدھمکیاں زدوکوب سے لے کر قتل و غارت تک بات پہنچنا ہمارے یہاں ایک عام بات ہے۔باقی کسی کے بارےجلسے جلوس میں، پبلک میٹنگز میں نازیبا الفاظ کا استعمال اور کردار کشی کے ہتھکنڈے استعمال کرنا عام بات ہے۔

کہتی ہیں ہمارا معاشرہ ایسا ہے ہم خود کوبرتر اس وقت سمجھتے ہیں کہ دوسرے کوکتناذلیل کرتے ہیں۔ اسے ہمارے یہاں پارلیمانی زبان کا نام دیا جاتا ہے۔جس میں تذلیل اور تضحیک آمیز رویہ شامل ہے۔

صدیوں سے ایک رواج چل رہا ہے جب غیرت کے ساتھ جوڑنا ہوتو عورت کو سامنے رکھ دیاجاتاہے۔جب ہمارے یہاں گالی دی جاتی ہے جو اصلاحات ہیں وہ بھی خواتین کے ساتھ منسلک کی گئی ہیں۔ ایسا لگتا ہے خاتون کو کمزوری کے طور پر استعمال کیاجاتا ہے۔

صنفی امتیاز اور تضحیک سیاست دانوں کا وہ پسندیدہ ہتھیارہے۔جس کے استعمال سےنہ قانون کی کوئی دفعہ لگتی ہے نہ ہی عوامی تنقید اثر رکھتی ہے۔

سندھو نواز گھانگھرو کاتعلق نوشہروفیروز،کنڈیارو سے ہے۔سندھو نے لاہور نیشنل آف آرٹس سے فلم ڈائریکشن میں گریجویشن کیاہے۔ نوشہرو فیروز کنڈیارو پی ایس 32سے آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات لڑ رہی ہیں ۔کہتی ہیں ہم ایک روایتی سماج میں رہتے ہیں اور اس کا حصہ ہیں۔ایک عورت کا سیاست کرنا اس کے لیے بہت ہی مشکل کام ہوتا ہے۔جب ایک خاتون غریب گھرانے یا مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے تو انہیں اس نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ وہ شادی کرے، بچے پیدا کرے، گھر سنبھالے، شوہر کا خیال رکھے اور گھر کا کام کرے۔خواتین کا گھر سے باہر نکلنا مردوں کو اچھا نہیں لگتا۔عورت کا اس سماج میں سیاست کرنامشکل عمل ہے۔ وہ تبدیلی کے خواب دیکھتی ہے۔ انہیں کٹھن راہ سے گزرنا پڑتاہے۔مڈل کلاس خاتون ہوکر سیاست کرنا سب سے مشکل کام ہوتاہے۔وہ مردوں کی سوچ کو چیلنج کرتی ہیں۔ان کےلیے زیادہ مشکل ہوتاہے۔ہم اس معاشرے کا حصہ ہے جہاں الیکشن میں صرف ایلیٹ طبقہ ہی حصہ لے سکتاہے۔وہ کسی نواب، سردار، وڈیرے کا بیٹا یا بیٹی ہو تو ہی کامیاب ہوسکتا ہے۔اگر آپ مڈل کلاس طبقے سے ہے تو آپ کےلیے، آپ کے خاندان کے لیے مزید مشکلات بڑھ جاتی ہے۔ناممکن تو کچھ بھی نہیں اور  تبدیلی تو لازمی لانی ہے۔'سٹیٹس کو' کو چیلنج کرنا بہت ضروری ہے۔کیونکہ ہم ایک غلام ذہنیت کے معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جو سوچتا ہے کہ جو جیسےچلا آرہا ہے، ٹھیک ہے۔ہم میں سے تبدیلی کےلیے کسی نہ کسی کو یہ چیلنج قبول کرنا تھا تو میں آگے بڑھی ہوں۔ مشکلات، پریشانیاں ہیں لیکن ان سب سے لڑناہے اور آگے بڑھنا ہوگا۔

میں ایک عرصے سے سیاست کرتی آرہی ہوں۔ عورت ہوکر باہر نکلنا بہت مشکل ہے۔ ہمارا تعلق سرمایہ دار طبقے سے نہیں ۔ میں سمجھتی ہوں کہ عورت کو  سب سے زیادہ ان کی کردار کشی کرکے کمزور کیا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں غلط پروپیگنڈہ کرکے، غلط باتیں کرکے انہیں سب زیادہ ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ جب میں سیاست کی تو اندازہ ہوا کہ یہ بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ سب کو برداشت کریں ۔سب سے پہلے ہمارے کپڑوں پر بات کی جاتی تھی ۔پھر زندگی گزارنے کے طریقہ کار پر بات کی جاتی تھی۔باقی جو بھی غلط الزامات لگائے جاتے تھے۔تو یقینا اس سارے عمل میں تکلیف ہی ہوتی ہے۔ عورت کو اپنے سے زیادہ اپنے گھر والوں کی فکر ہوتی ہے وہ جب یہ باتیں سنیں گے تو ان کے اوپر کیا گزرے گی۔ اگرہم نے معاشرے کو تبدیل کرنا ہے تو ہمیں ان سب چیزوں سے گزرنا پڑے گا۔تاکہ آنے والی لڑکیوں کےلیے کوئی راہ ہموار ہو سکے، کوئی راستہ کھلے۔میں عوامی سیاست کرتی آئی ہوں لوگوں کےلیے آواز اٹھانا، ان کےلیے لڑنا۔ ہم نےسیاست میں اب عملی حصہ لیاہے۔ہرسو پریشانی اور تکلیفیں ہیں۔ ہم کنڈیارو میں کام کرتے ہیں۔ وہاں ایک بات  باربار سننے کو ملتی ہےکہ  آپ عورت ہیں۔ آپ کا کام تو نہیں سیاست کرنا، احتجاج کرنا، کسی کرپٹ افسر کے خلاف بات کرنا، مظاہرہ کرنا نہیں ہے۔ہمیں کہا جاتا ہے آپ کا کام نہیں کہ سکول کی بہتری کی  باتیں کریں،  بنیادی صحت کے لیے آواز بلند کریں۔ آپ عورت ہیں،  گھر پر رہیں۔

یہ بھول جاتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو شہید، جن کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے، بھی ایک عورت تھیں۔ مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز بھی ایک عورت ہیں۔اگرعورت فریال تالپور صابق صدر مملکت آصف علی زرداری کی بہن کے روپ میں ہو یا بیٹی یا پھر کسی بھی نواب سردار گھرانے کی ہو تو ہی سیاست کرسکتی ہیں ۔اگر آپ بڑی گاڑی میں آئیں آگے پیچھے گارڈز ہوں، تمام ایم این اے اور ایم پی اے آپ کے آگے پیچھے ہوں تو ہی آپ کامیاب ہوں گے۔

ہماری طرح مڈل کلاس کی عورت سیاست نہیں کرسکتی ۔تبدیلی کے عمل میں بارش کا پہلا قطرہ کسی کو تو بننا تھا جس کے لیے میں نے اپنا انتخاب کیا۔ میدان میں آئی ہوں۔ مشکلات ہیں، ننگے پاؤں انگاروں، کانٹوں، دہکتے کوئلوں کی آگ سے گزرنا تو ہوگا آگے بڑھنا تو ہوگا۔

میں خواتین سے کہتی ہوں اپنے آپ کو پہنچانیں۔ آپ کو رب نے تبدیلی اور بہتری لانے کی صلاحیت دی ہے۔ آگے بڑھیں۔اپنے لیے راستے کا انتخاب خود کریں۔ اس منزل کو پانے کےلئے کردار کشی بھی ہوگی باتیں بھی ہوں گی۔ شروع میں مشکلیں ہیں، جب آپ منزل تک پہنچ جاتے ہیں تو وہ ساری مشکلات اور صعوبتیں، وہ سارا مشکل وقت آپ بھول جاتے ہیں۔ آپ کو پھر وہ منزل ہی نظر آتی ہے۔باقی لوگ بھی پھر آپ کو سراہتے ہیں۔ اس سارے پروسیس کو ان ساری چیزوں کو برداشت کرنا پڑے گا کیونکہ ایک بڑی جیت حاصل کرنےکےلیےتو یہ چھوٹی چھوٹی باتیں انسان کو برداشت کرنی پڑتی ہیں ۔لیکن ہارنا نہیں منزل کو حاصل کرنا ہے۔

انیلا رفیق ملاح نوجوان سیاست دان ہیں۔ عام انتخابات میں انہوں نے پہلی بار حصہ لیا ہے۔ یہ نواب شاہ پی ایس 37سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ کہتی ہے کہ الیکشن میں حصہ لینے عمل میں کوئی مشکلات سامنے نہیں آئی لیکن روایتی کردار کشی کا سلسلہ جاری ہے. پولیس کیسسز زدوکوب کرنا اور منفی پروپیگنڈا ہمارے خلاف کیا جارہا ہے۔آج سوشل میڈیا کا دور ہے۔ کوئی کسی کی آواز کو دبا نہیں سکتا ۔

اینکرپرسن اور تجزیہ کار ابصاءکومل کہتی ہیں کہ یہ باتیں جب پارٹی لیڈر کی طرف سے سامنے آتی ہیں، میں یہ  سمجھتی ہوں ان کی پارٹی کی خواتین کا ایک بہت بڑا کردار اس میں ہوسکتا ہے۔ ایک دو مواقع پر ماضی میں یہ چیز رپورٹ ہوئی ہیں۔ کچھ پارٹیوں میں خواتین کی طرف اپنے لیڈران پر تنقید کی گئی۔ لیکن آپ بھی جانتے ہیں، ہم بھی جانتے ہیں۔ ہمارے یہاں سیاسی جماعتوں میں اتنی جمہوریت تو نہیں کہ آپ اپنے پارٹی لیڈر کے خلاف کھڑے ہوجائے ۔میں نے یہ بھی دیکھا ہے جب ہم سیاسی جماعت کو، ان کے مزاج کو آبزرو کرتے ہیں۔  اس میں جو لڑکیاں یا خواتین ہیں، وہ بھی کئی بار اپنے لیڈران سے اتنی متاثر ہوتی ہیں کہ ان کی باتوں کو دہرانےلگتی ہیں۔وہ سمجھتی ہیں ان کا لیڈر ٹھیک کہہ رہا ہے۔

ماہر تعلیم اور معروف ادیبہ ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرہ کہتی ہیں کہ تمیز کے سلیقےکےبنیاد ذرا سی شائستگی کے جو اصول ہیں، ہم نے وہ نہیں اپنائے۔آپ کیا سمجھتے ہیں جب وہ پارلیمنٹ پہنچیں گے وہ بدل جائیں گے۔ یہ نشہ ہےجو انہیں زیادہ اعتبار دیتا ہے۔ اختیار کا نشہ اور اقدار کا نشہ۔پھر گالی کے سوا اور الزام تراشی کے سوا ہم کوئی اور بات کرتے ہی نہیں۔ ہمارے پارلیمنٹ میں اور ہوتا کیا ہے۔تعلیم کے کوئی معانی نہیں۔ لفظ تربیت ہے۔تعلیم سے  اگر  آپ کو چار حرف پڑھنا اورلکھنا آگئے ہے تو بڑی بات نہیں تربیت کے معانی کیا ہے وہ چار حرف آپ کے اندر اترے جذب ہوئے آپ نے اس کے معانی جانے اس کے بعد آپ کی زندگی بدلی ۔

سینئر صحافی تجزیہ کار اسحاق سومرو سندھ کے وہ منفرد صحافی ہیں جنہوں نے سندھ کی پارلیمانی سیاست 1937سے لیکر 2018 تک انتخابات پر کتاب لکھی ہے۔ باقی 2024 بھی اس میں آگے شامل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔  کہتے ہیں کہ ہماری یہاں خاتون کی اہمیت اور وجود کو تسلیم نہیں کیا جارہاہے۔ مرد خواتین کے الیکشن میں کھڑے ہونے کے عمل کو معیوب سمجھتا ہے۔ سانگھڑ سے شازیہ مری انتخابات میں جیتی ہیں۔ اس وقت انتخابی مہم کے دوران ان کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ لوگ تسلیم نہیں کرتےکہ وہ یہاں آئے اور جیتے۔ کس کا علاقہ ہے سب کو معلوم ہے ۔تو الیکشن میں مشکلات تو بہت ہے۔ ہمارے یہاں کردار کشی سے معاملہ آگے نکل جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ بہت تبدیلی آئی ہے لیکن مزید گنجائش ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار 1965میں فاطمہ جناح نے جنرل ایوب خان کی حریف کے طور پر انتخاب لڑا تو خواتین کی سیاست میں شرکت نمایاں ہوئی۔

سندھ بھر سے قومی اسمبلی کی 130 نشستوں پر صرف 96 خواتین مرد امیدواروں کا مقابلہ کرینگی  جب کہ صوبائی اسمبلی کی 163 نشستوں پر 170 خواتین مرد سیاست دانوں کے مد مقابل ہوں گی۔

دارالحکومت کراچی سے لے کر کشمور تک اس بار انتخابات میں سندھ کی بہادر بیٹیاں روایتی مرد سیاست دانوں کے مقابلے کے لیے میدان میں اتریں گی۔

جنرل نشستوں کے علاوہ سندھ بھر سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی خواتین کی مخصوص نشستوں سمیت اقلیتوں کی نشستوں پر بھی پہلی بار خواتین کو نامزد کیا گیا ہے۔

سندھ سے صوبائی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے لیے 8 خواتین کو نامزد کیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے آئندہ ماہ 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں انتخابی میدان میں اترنے والے سندھ کے امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کردی۔ جس کے مطابق صوبے بھر سے 5 ہزار 289 امیدوار انتخابی میدان میں اتریں گے۔

سندھ بھر میں جنرل نشستوں پر مردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے صوبے بھر کی 266 بہادر خواتین بھی انتخابی میدان میں اتریں گی اور خواتین روایتی طاقتور مرد سیاستدانوں کا قومی سمیت صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر مقابلہ کریں گی۔

سندھ میں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر مجموعی طور پر 139 خواتین مختلف جماعتوں کی نمائندگی کررہی ہیں یا آزادانہ حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ 

پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ اسی جماعت نے سب سے زیادہ تعداد میں خواتین امیدواروں کو نامزد کیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور بھی پیپلز پارٹی کی جانب سے پی ایس 10لاڑکانہ کی نشست پر امیدوار ہیں۔ پارٹی کی بااثر ترین شخصیات میں شمار ہونے والی فریال تالپور 2008ء میں این اے 207 لاڑکانہ سے ضمنی الیکشن میں کامیاب ہوئی تھیں۔  2013ء میں انہوں نے اسی حلقے سے ایک بار پھر کامیابی حاصل کی۔ قبل ازیں وہ نواب شاہ (بے نظیرآباد) کی میئر بھی رہ چکی تھیں۔ آصف علی زرداری کی دوسری ہمشیرہ عذرا فضل پیچوہو پی ایس 27 شہید بے نظیر آباد سے پارٹی کی امیدوار ہیں۔ پہلی بار وہ 2002ء کے عام انتخابات میں کامیاب ہوکر قومی اسمبلی میں پہنچی تھیں۔  2008ء اور 2013ء میں بھی این اے 213 شہید بے نظیر آباد کے ووٹروں نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا۔

شازیہ عطا مری سندھ کے سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ 2002ء، 2008ء اور پھر 2013ء میں وہ سندھ سے پاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیاب ہوئی تھیں۔ 2008ء میں سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے قیام کے بعد دو سال تک انہوں نے وزیرتوانائی اور وزیراطلاعات کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ 2013ء میں وہ این اے 235 سانگھڑ سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ واضح رہے کہ اس حلقے سے پیرپگارا کے نامزد کردہ امیدوار ہی کامیاب ہوتے تھے، تاہم 2013ء میں شازیہ مری نے کامیابی حاصل کرکے سب کو حیران کردیا تھا۔ موجودہ انتخابات میں وہ این اے 216 سانگھڑ سے قومی اسمبلی کی امیدوار ہیں۔

سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی دختر نفیسہ شاہ بھی میدان میں ہیں۔ وہ این اے 208 خیرپور سے پیپلزپارٹی کی نمائندگی کررہی ہیں۔ 

کراچی سے پیپلز پارٹی نے 7 خواتین کو ٹکٹ دیے ہیں مگر تمام امیدواروں کو ان حلقوں سے نامزد کیا گیا ہے جہاں پارٹی کا ووٹ بینک نسبتاً کم زور ہے۔ 2008 ء اور 2013ء میں سندھ اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر کے فرائض نبھانے والی سیدہ شہلا رضا این اے 243 ( ضلع شرقی) سے انتخابی میدان میں اتری ہیں۔ جامعہ کراچی سے نفسیات میں ماسٹرز کی سند کی حامل شہلا رضا کا اس حلقے میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، ایم کیو ایم پاکستان کے خالد مقبول صدیقی سے مقابلہ ہے۔ تحریک انصاف کی سابق راہ نما ناز بلوچ پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد پی ایس 127 (ضلع وسطی) سے چُناؤ لڑ رہی ہیں۔ ناز بلوچ پیپلز پارٹی کے سابق وزیر عبداﷲ بلوچ کی بیٹی ہیں۔ انہوں نے 2013ء میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر این اے 240 سے انتخاب لڑا تھا اور دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ انہوں نے گذشتہ برس جولائی میں پی ٹی آئی کو خیرباد کہہ دیا تھا۔

پیپلز پارٹی نے گذشتہ دورحکومت میں وزیراعلیٰ سندھ کی مشیر رہنے والی شمیم ممتاز کو پی ایس 124 (ضلع وسطی) سے امیدوار نامزد کیا ہے، جب کہ ڈاکٹرشاہدہ رحمانی پی ایس 118  (ضلع غربی) سے قسمت آزمائی کریں گی۔ ضلع کورنگی کی نشستوں پی ایس 93، 94 اور 95 سے بالترتیب انجم نذیر، گل رعنا اور رابعہ عباسی کو انتخابات میں پیپلز پارٹی کی نمائندگی دی گئی ہے۔ یہ تمام غیرمعروف خواتین ہیں۔

آصف علی زرداری کے سابق دیرینہ رفیق ڈاکٹرذوالفقار مرزا کی اہلیہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، پیر پگارا کی سربراہی میں تشکیل پانے والے سیاسی جماعتوں کے اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے پرچم تلے بدین سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 230 اور صوبائی اسمبلی کے حلقے پی ایس 73 سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت میں قومی اسمبلی کی سپیکر رہ چکی ہیں۔ آصف زرداری کے ساتھ اختلافات کے بعد جب ان کے شوہر ذوالفقار مرزا نے پیپلز پارٹی سے راہیں جُداکیں، تو ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے بھی شہید بے نظیر بھٹو کی پارٹی سے منھ موڑ لیا۔

17 سال تک پاکستان تحریک انصاف سے جُڑی رہنے کے بعد فوزیہ قصوری رواں سال مئی میں مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی کا حصہ بن گئیں۔ پی ٹی آئی کی بانی رکن کے عمران خان کی پارٹی سے منھ موڑنے کے فیصلے سے زیادہ پی ایس پی میں شمولیت حیرانی کا باعث تھی۔ اب وہ قومی اسمبلی کے حلقے این اے 247 سے پی ایس پی کی امیدوار ہیں۔ ڈاکٹر فوزیہ حمید این اے 249 سے پی ایس پی کی نامزد کردہ امیدوار ہیں۔

ایم کیو ایم پاکستان نے کشور زہرا کو قومی اسمبلی کی نشست این اے 242 سے میدان میں اتارا ہے۔ پچھلے دونوں انتخابات میں جیت کے بعد وہ قومی اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ کی نمائندگی کرچکی ہیں۔ این اے 248 کی نشست پر ایم کیو ایم پاکستان نے افشاں قمبر علی کو نامزد کیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے این اے 238 ملیر سے زنیرہ رحمان کو اپنی امیدوار نامزد کیا ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے این اے 245کراچی ایسٹ سے ثمینہ ہما میر میدان میں ہیں۔ اے این پی نے این اے 256 ضلع وسطی سے صوفیہ یعقوب کو انتخابی میدان میں اتارا گیا ہے۔ اسی طرح این اے 244 کراچی فائیو سے اے این پی کی قیادت نے شازیہ رزاق خان پر اظہار اعتماد کیا ہے۔ سندھ اسمبلی کی نشستوں PS-103 کراچی ایسٹ سے معصومہ نور ترین اور پی ایس 87  ملیر سے صائقہ نور اے این پی کی نمائندگی کررہی ہیں۔