پاکستان میں سیاست میں خواتین کا کردار ہمیشہ سے متنازعہ رہا ہے،فاطمہ جناح سے لے کر بینظیر بھٹو اور مریم نواز تک، ان سیاسی خواتین نے نہ صرف ملکی سیاست پر اثر ڈالا بلکہ ان کی شخصیت، طرزِ زندگی، لباس اور گفتگو پر بھی مختلف مکاتبِ فکر سے تنقید کی گئی۔ اس تنقید کے پیچھے جتنا سیاسی عوامل تھے، اتنی ہی ثقافتی اور سماجی روایات بھی کارفرما تھیں۔پاکستان میں خواتین سیاستدانوں کی کردار کشی ایک عمومی رجحان بن چکی ہے۔ اس میں لباس، بات چیت اور حتیٰ کہ ان کے جذباتی اظہار کو بھی موضوع بنایا جاتا ہے۔ فاطمہ جناح سے لے کر مریم نواز تک، تمام سیاسی خواتین کے لیے ایک خاص قسم کی توقعات اور معیار قائم کیا گیا ہے۔ اگر وہ ان معیاروں پر پورا نہیں اترتیں تو ان کی سیاسی ساکھ کو چیلنج کیا جاتا ہے۔ یہ ایک اہم سوال ہے کہ آیا سیاست میں خواتین کے کردار کو ہمیشہ اس زاویے سے کیوں دیکھا جاتا ہے؟ کیا یہ سماجی اور ثقافتی محدودیتوں کا نتیجہ ہے؟ یا پھر یہ انفرادی سیاستدانوں کی شخصیت کے بارے میں محض رائے زنی کا معاملہ ہے؟ خواتین کی سیاست میں شمولیت کو ہمیشہ مردوں کے تسلط میں کیوں سمجھا جاتا ہے؟ فاطمہ جناح پاکستانی سیاست میں پہلی مرتبہ ایسی خاتون کے طور پر سامنے آئیں جنہوں نے خود کو سیاسی طور پر منوایا۔ وہ قائداعظم محمد علی جناح کی بہن تھیں اور ان کی سیاسی وراثت کو اپنے کاندھوں پر اٹھایا۔ ان کے لباس اور گفتگو پر بھی مختلف رائے آئیں۔ فاطمہ جناح ایک مہذب، سلیقے والی اور معقول شخصیت کے طور پر جانی جاتی تھیں، لیکن ان کی سیاست میں سرگرمی اور عمومی رویے نے اس وقت کے سماج میں کچھ لوگوں کو متذبذب کیا۔ فاطمہ جناح کے حامی مولانا حضرات ان کی حمایت میں ہمیشہ پیش پیش رہے، لیکن ان کے مخالفین نے ان کے "خواتین" ہونے کی وجہ سے ان کی سیاسی ساکھ پر سوال اٹھائے۔
ان کے حامی یہ کہتے تھے کہ فاطمہ جناح نے ایک طرف قائداعظم کا ساتھ دیا، دوسری طرف وہ خواتین کے حقوق کے لیے بھی آواز اٹھاتی رہیں۔ ان کے مخالفین کا کہنا تھا کہ خواتین کا سیاست میں آنا معاشرتی اصولوں کے خلاف ہے اور اس سے قومی تشخص متاثر ہوتا ہے۔فاطمہ جناح کے ساتھ آخری وقت تک کھڑے رہے افراد میں نمایاں مولانا مودودی، شوکت حیات، خواجہ صفدر، چوہدری احسن، خواجہ رفیق (والد خواجہ سعد رفیق)، کرنل عابد امام (والد عابدہ حسین)، اور علی احمد تالپور شامل تھے مولانا مودودی رحمتہ اللہ نے ایک جملہ کہا تھا ایوب خان میں اس کے سوا کوئی خوبی نہیں کہ وہ مرد ہے، فاطمہ جناح میں اس کے سوا کوئی کمی نہیں کہ وہ عورت ہیں مولانا مودودی کے علاوہ مولانا عبد الستار نیازی فرنٹ فٹ پر فاطمہ جناح کے سپاہی، مفتی محمد شفیع نے بھی دباؤ کے باوجود ایوب کے حق میں بیان نہیں دیا۔ البتہ صاحبزادہ فیض الحسن، علامہ احمد سعید کاظمی نے مادر ملت کے خلاف فتوے صادر کئے ملتان کے قریشی اور گیلانی خاندان ایوب کے حامی تھے، لاہور کے میاں شریف ایوب کے حامی تھے۔ گجرات کے چوہدری ایوب کے حامی تھے۔راولپنڈی میں راجا ظفر الحق ایوب کے حامی تھے۔یہاں تک کہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ جیسی نظم لکھنے والے اصغر سودائی بھی ایوب کے قصیدے لکھتے تھے۔
بینظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں اور ان کا سیاسی سفر ایک تاریخی سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی شخصیت، طرزِ زندگی اور سیاست نے پاکستانی معاشرے میں بڑی تبدیلیاں لائیں۔ ان کے لباس اور بات چیت پر بھی مختلف آراء آئیں۔ بینظیر کے مخالفین نے یہ بھی کہا کہ ان کی سیاست ایک "وراثتی" سیاست تھی، کیونکہ وہ بھٹو کی بیٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کی وارث تھیں۔ اس کے برعکس ان کے حامیوں کا کہنا تھا کہ بینظیر نے اپنے والد کے نظریات کو آگے بڑھایا اور دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بینظیر کی شخصیت میں ایک خاص قسم کا سلیقہ اور ذہانت تھی، جو انہیں دوسرے سیاستدانوں سے ممتاز کرتی تھی۔ مریم نواز پر ہونے والی ذاتی تنقید کے حوالے سے، ان کے مخالفین نے اکثر ان کی شخصیت، لباس، اور گفتگو کے انداز پر تنقید کی ہے۔مریم نواز کی سیاست کا ایک خاص پس منظر ہے۔ وہ نواز شریف کی بیٹی اور مسلم لیگ (ن) کی اہم رکن ہیں۔
مریم نواز نے اپنے والد کی سیاسی وراثت کو آگے بڑھایا اور ان کے ساتھ جیل بھی گئیں۔ان کی شخصیت اور لباس پر بھی عوامی سطح پر تنقید کی گئی ہے۔ ان کے مخالفین نے کہا کہ مریم نواز کا سیاست میں آنا ایک "وراثتی" عمل ہے اور انہوں نے اپنے والد کے اثر و رسوخ کے زیرِ اثر ہی سیاست میں قدم رکھا۔ مریم نواز کے لباس اور ان کے گفتگو کے انداز پر بھی بحث ہوتی رہی ہے۔ ان کا عمومی لباس عموماً پاکستانی روایات کے مطابق ہوتا تھا، لیکن ان کی تقریریں اور سیاسی بیانات زیادہ تر پرجوش اور جرات مندانہ ہوتے تھے۔ان کے حامیوں کا کہنا تھا کہ مریم نواز نے نہ صرف اپنے والد کے نظریات کی حفاظت کی بلکہ خواتین کے حقوق کی بھی بات کی۔ انہوں نے خواتین کی تعلیم، صحت، اور روزگار کے مواقع میں بہتری لانے کی کوشش کی۔مریم نواز کی شخصیت اور سیاست پر تنقید کے باوجود، ان کی حمایت کرنے والے بھی ہیں جو ان کی جرات، بصیرت، اور خواتین کے حقوق کی وکالت کو سراہتے ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ مریم نواز کی شخصیت اور سیاست پر تنقید کرنے والے اکثر ان کے مخالف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی تنقید کا ایک حصہ سیاسی معرکہ آرائی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ پاکستانی سیاست میں خواتین کے کردار پر تنقید کا ایک بڑا سبب پاکستانی معاشرتی ڈھانچے میں خواتین کی پوزیشن ہے۔
ہمارا معاشرہ ایک قدامت پسند معاشرہ ہے، جس میں خواتین کو سیاست میں شامل ہونے کے بارے میں مختلف خیالات ہیں۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ فاطمہ جناح، بینظیر بھٹو اور مریم نواز جیسی خواتین نے نہ صرف سیاست میں قدم رکھا بلکہ انہوں نے خواتین کے حقوق کے لیے بھی آواز اٹھائی۔ اس تنقید کے باوجود، ان سیاسی خواتین نے یہ ثابت کیا کہ خواتین کا کردار سیاست میں اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ مردوں کا۔ ان کی جدوجہد اور سیاسی کامیابیاں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ خواتین کو سیاست میں اپنے حق کے لیے لڑنا چاہئے اور انہیں کسی قسم کی سماجی یا ثقافتی رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرنا چاہئے۔ اگرچہ ان کے لباس، بات چیت یا کردار پر انگلیاں اٹھائی جاتی رہیں گی، لیکن ان کی سیاسی کامیابیاں اور ان کے عملی کام ان تمام تنقیدوں سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔