غلیظ ترین سیاست کے علمبردار اور سیاسی ورکرز کی ذہنی پسماندگی

غلیظ ترین سیاست کے علمبردار اور سیاسی ورکرز کی ذہنی پسماندگی
بیگم کلثوم نواز اس وقت وینٹیلیٹر پر ہیں اور لائف سپورٹ کے سہارے انہیں زندہ رکھا گیا ہے۔ دل کا دورہ پڑنے اور دس منٹ تک دل بند رہنے کے بعد مریض کا وینٹیلیٹر کی مدد سے سانسیں لے کر دوبارہ زندگی میں صحتیابی کی طرف لوٹنا ایک معجزے سے کم نہیں ہوا کرتا۔ راقم خود اس اذیت سے گزر چکا ہے اور اپنے والد گرامی کو اس حالت میں دیکھنے کے بعد کھو چکا ہے۔ اس لئے دعا ہے کہ خدا بیگم کلثوم نواز کو صحت دے کہ والدین کا سایہ سر سے اٹھنا ایک ناقابل برداشت بوجھ ہوتا ہے۔ کلثوم نواز کی کینسر کی طویل بیماری کے دوران جس قدر پست ذہنیت کا مظاہرہ تحریک انصاف کی قیادت اور پھر بیگم صاحبہ کو حال ہی میں دل کا دورہ پڑنے کے بعد تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے لوگوں کی جانب سے دیکھنے کو ملا اس سے اندازہ ہوا کہ محترم عمران خان نے محض وزارت عظمیٰ کی لالچ میں ہماری سیاست سے رواداری اور شائستگی کی اقدار کو ملیا میٹ کرتے ہوئے ایک ایسی نسل تیار کر دی ہے جو ذہنی طور پر پست ترین درجے پر فائز ہے اور جس کے نزدیک تحریک انصاف کے علاوہ سب ڈرامہ باز اور مکار ہیں۔

دیکھا جائے کہ کیا کلثوم نواز صاحبہ واقعی میں بیمار ہیں یا یہ سب ایک ڈرامہ ہے

https://www.youtube.com/watch?v=KKEPMitH1TQ

جب بیگم کلثوم نواز کو کینسر تشخیص ہوا تو تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت اسے ڈھونگ قرار دیتی رہی۔ اب جب کلثوم نواز صاحبہ کو دل کا دورہ پڑا تو اس کے کارکن اسے ایک ڈرامہ قرار دینے میں مصروف ہیں۔ کلثوم نواز کے کمرے میں چھپ کر گھسنے کی کوشش کرنے والی مذموم حرکت دیکھ کر تحریک انصاف کی سیاست کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے۔ یعنی یہ ایک کوشش تھی کہ دیکھا جائے کہ کیا کلثوم نواز صاحبہ واقعی میں بیمار ہیں یا یہ سب ایک ڈرامہ ہے۔ تحریک انصاف کی پست ترین سیاست کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس جماعت کے چند ذمہ داران سے راقم کی بات ہوئی تو انہیں یہ پریشانی لاحق تھی کہ اگر کلثوم نواز کو کچھ ہو گیا تو ہمدردی کا مزید ووٹ مسلم لیگ نواز کو ملے گا۔ کچھ قائدین اس بحث میں الجھے نظر آئے کہ اگر کلثوم نواز صاحبہ کو کچھ ہو جاتا ہے تو انتخابات کی تاریخ آگے بڑھانے میں ہی تحریک انصاف کی بچت ہے۔ یہ ہے اس جماعت کا اصل چہرہ۔



اس جماعت کے کارکنوں کی پست سوچ پر ہرگز بھی تعجب نہیں ہونا چاہیے

اب جہاں اس جماعت کے ذمہ داران کی ذہنی سطح اتنی پست ہو وہاں اس جماعت کے کارکنوں کی پست سوچ پر ہرگز بھی تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ آپ ابھی ٹویٹر یا فیس بک پر لاگ ان کیجئے، آپ کو کلثوم نواز کی بیماری کے متعلق ان گنت اخلاقیات کی حد سے گرے پیغامات نظر آئیں گے۔ کوئی کلثوم نواز کی بیماری کو ڈھونگ قرار دے رہا ہوگا تو کوئی اسے شریف خاندان کی کرپشن کا مکافات عمل قرار دیتا نظر آئے گا۔ گو اتنی سطحی اور پست ذہنیت کے لوگوں کا تذکرہ کرنا وقت کا زیاں ہے لیکن پھر بھی تحریک انصاف کے ان اندھے پیروکاروں جو عمران خان جیسے سیاستدان اور ارشاد بھٹی جیسے صحافی کی باتوں پر ایمان کامل رکھتے ہیں کو ریکارڈ کی درستگی کے لئے یہ بتانا ضروری ہے کہ شریف خاندان اس وقت بھی پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں شامل ہوتا تھا جب یہ خاندان سیاست میں انٹر بھی نہیں ہوا تھا۔



عمران خان صاحب ہمہ وقت خدا مجھے سب کچھ دے بیٹھا کی گردان الاپتے ہیں

2011 میں سیلاب زدگان کے گھروں کی تعمیر کے لئے ایک میڈیا کے ادارے کے ساتھ مل کر جمع کی گئی اربوں کی رقم کا کوئی حساب کتاب نہ دینے والا شخص اور چند ہزار تعمیر شدہ گھر بھی بطور ثبوت نہ پیش کرنے والا آدمی اور اس کے پیروکار ہرگز بھی ایمانداری اور مکافات عمل کے بھاشن دیتے مناسب نہیں لگتے۔ کمال منافقت ہے کہ خود زکوٰۃ اور چندے کے پیسوں میں بھی خوردبرد کی جائے، کروڑوں روپے ایک عمرے کی ادائیگی پر لگا دیے جائیں اور پھر مخالفین پر کرپشن اور وسائل بےدردی سے لٹانے کا الزام لگا کر ان کی قریب المرگ بیوی اور ماں کی بیماری تک کو ڈرامہ یا کرپشن کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے مکافات عمل قرار دیا جائے۔ محترم عمران خان صاحب ہمہ وقت خدا مجھے سب کچھ دے بیٹھا کی گردان الاپتے ہیں اور ان کے اندھے سیاسی مرید اس پر ایمان لاتے ہوئے سر دھنتے ہیں۔ جو شاہانہ انداز زندگی عمران خان نے اپنایا ہے بغیر کسی ٹھوس ذریعہ معاش کے اس کو مینٹین کرنا فہم سے بالاتر ہے۔





علیم خان جیسے قبضہ مافیا، شاہ محمود جیسے عقیدے کے سوداگر اور جہانگیرترین جیسے کرپٹ صنعتکار بھی ان اندھے پیروکاروں کو نہ صرف پارسا دکھائی دیتے ہیں

خان صاحب نے بہت کرکٹ کھیلی ہے لیکن انہوں نے سچن ٹنڈولکر یا ایم ایس دھونی سے زیادہ نہ تو کرکٹ کھیلی ہے اور نہ ان دونوں سے زیادہ پیسہ کمایا ہے۔ آپ ذرا دھونی اور ٹنڈولکر کی زندگی کا جائزہ لیجئے، یہ دونوں سٹار اتنا پیسہ کمانے کے باوجود اپنا معیار زندگی برقرار رکھنے کے لئے سائیڈ بزنس کرتے ہیں، اشتہارات میں کام کر کے پیسہ کماتے ہیں۔ جبکہ خان صاحب گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ ہاتھ ہر ہاتھ دھر کر ایک شاہانہ زندگی گزارتے ہیں۔ اکثر خان صاحب کے مریدین مشرف دور میں عمران خان کا محض وزارت عظمیٰ کی کرسی کے لئے مشرف کے تلوے چاٹنا بھی فراموش کر دیتے ہیں۔ علیم خان جیسے قبضہ مافیا، شاہ محمود جیسے عقیدے کے سوداگر اور جہانگیرترین جیسے کرپٹ صنعتکار بھی ان اندھے پیروکاروں کو نہ صرف پارسا دکھائی دیتے ہیں بلکہ جماعت پر لگائے گئے ان کے کروڑہا روپے بھی حلال کے بن جاتے ہیں۔



عمران خان نے میڈیا ہاؤسز کی پشت پناہی پر ایک مینوفیکچرڈ بیانیہ تشکیل دے کر پاکستان میں شاہ دولہ کے چوہوں کی ایک ایسی نسل تو تشکیل دے دی جو صرف عمران خان کی کہی ہوئی بات کو حرف آخر مانتی ہے لیکن خود خان صاحب کا یہ حال ہے کہ حال ہی میں بی بی سی کے مشہور زمانہ پروگرام ہارڈ ٹاک کی ایک اینکر زینب نے ان کے تمام جھوٹوں کی قلعی کھولتے ہوئے ان کی تاریخی کلاس لے لی۔ خیبر پختونخوا میں بدترین کارکردگی سے لے کر ان کے انتخابی منشور کو زینب نے نہ صرف گھسا پٹا ثابت کیا بلکہ انہیں احساس بھی دلوا دیا کہ بی بی سی پر نہ تو پلانٹڈ انٹرویوز ہوتے ہیں اور نہ ہی وہاں اینکر یا چینل کی انتظامیہ کو نامعلوم نبمرز سے کالیں کروا کر سوالات و جوابات حسب منشا کیے جاتے ہیں۔

https://www.youtube.com/watch?v=kjS5iSm3l0s

آپ کی ذہنی حالت پر ترس کھاتے ہوئے یہ دعا ہی کی جا سکتی ہے

خیر بات شروع ہوئی تھی کلثوم نواز کی بیماری سے، تو صاحب اگر آپ انسانی ہمدردی کے جذبے سے نابلد ہیں اور والدین کے بستر مرگ پر موجود ہونے کے کرب کا آپ کو احساس بھی نہیں ہے تو آپ کی ذہنی حالت پر ترس کھاتے ہوئے یہ دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ خدا آپ کو دوسروں کی تکالیف کو سمجھنے کے جذبے کی نعمت عطا کرے، تاکہ آپ آدمی کے درجے سے بڑھ کر انسان یعنی اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز ہو سکیں۔ ہماری پنجاب کی اقدار کے مطابق تو نسل در نسل قتل کی دشمنی رکھنے والے بھی بزرگوں کی بیماری پر حال احوال کے پرسے بھیجتے ہیں اور وقتی طور ہر سیز فائر کر لیتے ہیں، یہ تو پھر سیاست ہے۔ اقتدار ایک ثانوی چیز ہے اور سیاسی مخالفت کے بھی کچھ آداب ہوا کرتے ہیں خود کو احساس برتری کے مرض میں مبتلا کر کے مخالفین کو کمتر سمجھنا اور بیماری کو مذاق بنانا سیاست اور ذہنی پستی کی بدترین مثال ہے۔ خان صاحب کو مبارک ہو کہ ان کی بد زبانی اور نفرت کی سیاست نے ان کے پیروکاروں کو اس نچلے ترین درجے پر فائز کر دیا ہے جہاں احساس اور تہذیب نام کی کسی شے کا تصور بھی ناپید ہے۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔