کلثوم نواز اپنی بیماری کا مذاق بنانے والے بونوں پر کہیں اوپر سے ہنس رہی ہوں گی

کلثوم نواز اپنی بیماری کا مذاق بنانے والے بونوں پر کہیں اوپر سے ہنس رہی ہوں گی
بیگم کلثوم نواز صاحبہ نے زندگی کی آخری سانسیں لندن کے نجی ہیستال میں بتائیں اور بالآخر خالق حقیقی سے جا ملیں۔ ایک بہادر اور باہمت خاتون جس نے پہلے مشرف کی آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور پھر کینسر جیسے موذی مرض کا۔ شاید کینسر سے زیادہ تکلیف انہیں ان کے شوہر اور بیٹی کے ساتھ ناروا سلوک اور سیاسی مخالفین کی کم ظرفی اور پست سوچ سے پہنچی جس کے مطابق کلثوم نواز صاحبہ کو کوئی بیماری لاحق نہیں تھی بلکہ وہ محض بیماری کا ڈھونگ رچا رہی تھیں۔ چلیے بالآخر ان کی موت نے یہ تو ثابت کر دیا کہ ہم اخلاقی طور پر کس قدر پستی کا شکار ہیں کہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ایک مریض کو بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ یا سیاسی وابستگی کی خاطر نیچا دکھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

جب ایک آمر اپنے پورے جوبن پر تھا، کلثوم نواز نے مسلم لیگ نواز کی صدارت سنبھالی

کلثوم نواز کی موت سے وطن عزیز کا ہر وہ شخص افسردہ ہے جسے سیاست کی ذرا سی بھی سوجھ بوجھ ہے اور جو ملکی سیاسی تاریخ کا تھوڑا سا بھی ادراک رکھتا ہے۔ 1950 میں لاہور میں پیدا ہونے والی کلثوم نواز نے پنجاب یونیورسٹی سے اردو میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور بعد ازاں فلسفے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کا اعزاز پایا۔ 1971 میں وہ نواز شریف کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ پرویز مشرف نے 1999 میں جب مارشل لا نافذ کرتے ہوئے نواز شریف کو پابند سلاسل کیا تو اس وقت مسلم لیگ نواز کا شیرازہ بکھر چکا تھا اور ایسے کڑے حالات میں جب ایک آمر اپنے پورے جوبن پر تھا، کلثوم نواز نے مسلم لیگ نواز کی صدارت سنبھالی۔ انہوں نے نہ صرف نواز شریف کی رہائی کے لئے ملک گیر تحریک چلائی بلکہ نوابزادہ نصراللہ خان کے ساتھ مل کر گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس بھی قائم کیا اور جمہوری بالادستی کی جنگ کو آگے بڑھایا۔



یہ بھی پڑھیں: پیپلز پارٹی کی خوش فہمیاں، کلثوم نواز کی لازوال جدوجہد، اور بھارتی طیارہ ہائی جیک







شیخ رشید نے صرف مشرف کے خوف کے مارے کلثوم نواز سے نہ صرف ملنے سے انکار کر دیا

کلثوم نواز کی جاندار اور مزاحمتی سیاسی تحریک نے مشرف کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور اس نے نواز شریف کو سعودی عرب جلا وطن کرنے میں ہی اپنی عافیت گردانی۔ کلثوم نواز جس دور میں پرویز مشرف کے خلاف تحریک چلا رہی تھیں اس وقت شیخ رشید مسلم لیگ نواز میں شامل ہوتے تھے۔ کلثوم نواز ایک روز پنڈی میں احتجاج کی خاطر شیخ رشید سے ملنے لال حویلی پہنچییں تو شیخ رشید نے نہ صرف مشرف کے خوف کے مارے کلثوم نواز سے نہ صرف ملنے سے انکار کر دیا بلکہ لال حویلی کے دروازے بھی ان کے لئے بند کروا دیے۔ کلثوم نواز اس دن اس شخص کی اصلیت پہچان گئیں۔ جب 2007 میں نواز شریف جلا وطنی کے بعد واپس آئے تو شیخ رشید نے ایک بڑے میڈیا گروپ کے مالک کے ذریعے نواز شریف کو درخواست کی کہ انہیں معاف کر دیا جائے اور دوبارہ نواز لیگ میں شامل کر لیا جائے۔ نواز شریف شاید اس وقت یہ بات مان جاتے لیکن بیگم کلثوم نواز صاحبہ نے انہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا اور آج وقت نے ثابت کیا کہ کلثوم نواز کا شیخ رشید سے متعلق فیصلہ بالکل درست تھا۔



مریم میں 1999 کی بیگم کلثوم نواز کا عکس نظر آتا ہے

اسی طرح مریم نواز کو ایک گھریلو شادی شدہ عورت سے ایک سیاسی لیڈر بنانے میں بھی کلثوم نواز کا بے حد عمل دخل رہا۔ کلثوم نواز ادبی حلقوں میں اپنے ادب سے لگاؤ اور سیاسی حلقوں میں اپنی ہمت اور سیاسی ذہانت کے باعث قدر و عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں اور انہوں نے اپنی ان صلاحیتوں کو اپنی بیٹی مریم میں دھیرے دھیرے پروان چڑھایا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ جب بھی مریم کو تقریر کرتا دیکھیں یا میڈیا سے بات کرتا دیکھیں تو آپ کو مریم میں 1999 کی بیگم کلثوم نواز کا عکس نظر آتا ہے۔ مریم جس طرح نادیدہ قوتوں کو جلسوں میں للکارتی ہے، ٹھیک اسی طرح کلثوم نواز مشرف کو اس کے بام عروج میں للکارا کرتی تھیں۔ مسلم لیگ نواز میں مریم نواز کو پہلے فیصلہ سازی میں کلیدی کردار دلوانے اور پھر مریم کو نواز شریف کا جانشین بنوانے میں بھی کلثوم نواز کا ہاتھ تھا۔ کلثوم نواز نے نواز شریف کو اس بات پر قائل کیا تھا کہ مریم ہی نواز شریف کی سیاسی جانشین ہوں گی اور وقت نے کلثوم نواز صاحبہ کا یہ فیصلہ بھی درست ثابت کیا۔ جب نواز شریف پر برا وقت آیا تو مریم نواز نے بیٹوں سے بڑھ کر اپنے باپ کا ساتھ دیا اور آج وہ اپنے والد کے ساتھ جیل کی سلاخوں کے پیچھے عزم و ہمت سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے بیگم کلثوم نواز صاحبہ کی سیاسی قابلیت اور درست فیصلوں کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔



بیگم کلثوم نواز جاتے جاتے بھی اپنی پرچھائی کے طور پر مریم کو چھوڑ گئیں

ہمارے معاشرے میں اکثر بیٹوں کو باپ کا سہارا تصور کیا جاتا ہے اور بچیوں کو زیادہ سے زیادہ آسائشیں دی جاتی ہیں. انہیں تھوڑا ہی کہا جاتا ہے کہ اپنے باپ کی حفاظت کرنا یا اپنے بھائیوں کا خیال رکھنا۔ لیکن کلثوم نواز نے مریم نواز کی سیاسی اور اعصابی ترببت اس طرح سے کی کہ آج وہ نہ صرف آہنی اعصاب کی مالک بن کر باپ کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑی ہے بلکہ اپنی سیاسی قابلیت کی بنا پر نواز شریف کی سیاسی جانشین بن کر ابھرتے ہوئے اپنے ووٹ بنک کے دل میں بطور لیڈر گھر کر چکی ہے۔ شاید بیگم کلثوم نواز جاتے جاتے بھی اپنی پرچھائی کے طور پر مریم کو چھوڑ گئیں جسے نہ صرف اپنے باپ کے ساتھ مشکل حالات میں کھڑے رہنا ہے بلکہ کلثوم نواز صاحبہ کی مانند اسٹیبلشمنٹ سے جمہوری بالادستی کی جنگ بھی لڑنی ہے۔

کلثوم نواز نے متانت اور رکھ رکھاؤ کے ساتھ خاموشی سے اپنے خاندان پر ہونے والی بےجا تنقید کو برداشت کیا

خیر، کلثوم نواز صاحبہ کا خلا تو خود مریم بھی نہیں پر کر سکتی کہ اس قدر اعلیٰ ظرف اور ذہین خاتون کا خلا پر کرنا ناممکن سی ہی بات ہے۔ کلثوم نواز نے جس طریقے سے خاموشی سے ضرورتمندوں کی تمام عمر مدد کی اس کا ادراک بہت کم لوگوں کو ہے۔ اسی طرح کلثوم نواز نے لاپتہ بلاگرز کو آزاد کروانے میں بھی انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔ بطور خاتون اول انہوں نے جس متانت اور رکھ رکھاؤ کے ساتھ خاموشی سے اپنے خاندان پر ہونے والی بےجا تنقید کو برداشت کیا وہ بھی شاید ہی کسی اور نے کیا ہو۔ کینسر کی تشخیص سے لے کر اپنی زندگی کی آخری سانس تک کلثوم نواز نے اپنی بیماری کے حوالے سے مخالفین کی سطح سے گری ہوئی تنقید اور جھوٹ سنے لیکن کبھی جواب نہیں دیا۔

وہ ایک قد آور شخصیت تھیں

عمران خان اور ان کی جماعت کے افراد نے جس طرح سے بیگم کلثوم نواز کی بیماری کو کبھی تنقید اور کبھی مذاق کا نشانہ بنایا، وہ سب کے سامنے ہے لیکن کلثوم نواز نے کبھی پلٹ کر جواب نہیں دیا۔ وہ ایک قد آور شخصیت تھیں جو یہ بات جانتی تھیں کہ بونے اپنا قد بڑھانے کے لئے طویل قامت افراد پر پھبتیاں کستے ہیں کہ یہ بونوں کی مجبوری ہوا کرتی ہے کہ وہ اپنے سے بڑی یا قد آور شخصیت کو دیکھ کر اپنی خفت اور احساس کمتری مٹانے کے لئے ایسی اوچھی حرکتیں کیا کرتے ہیں۔



وہ خاموشی سے زندگی کی آخری سانس لے کر طاقت کی بساط سجانے والے نادیدہ ہاتھوں کو بھی شرمندہ کر گئیں

کلثوم نواز پر بیماری کا ڈرامہ کرنے کا الزام لگانے والے تمام سیاستدان، صحافی اور پیراشوٹ ٹی وی اینکرز اب اپنی خفت مٹانے کے لئے تعزیتی پیغامات بھیج رہے ہیں اور پروگرامز بھی کر رہے ہیں اور کبھی معافی نامے جاری کر رہے ہیں لیکن کلثوم نواز ہمیشہ کی مانند خاموش ہیں۔ آخر ان بونوں کی اوقات ہی کیا ہے؟ محض جگتیں اور پھبتیاں کسنا، اور جھوٹ کو پراپیگینڈے کے دم پر سچ ظاہر کرنا یا ایک ایسی نسل تیار کرنا جو سیاسی رموز اور حقائق سے ناآشنا محض گالیاں دینے، طعنہ زنی کرنے اور ماؤں کی بیماریوں پر ٹھٹھے لگانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ وہ تو خاموشی سے زندگی کی آخری سانس لے کر طاقت کی بساط سجانے والے ان نادیدہ ہاتھوں کو بھی شرمندہ کر گئیں جنہوں نے ہر قیمت پر نواز شریف کو سیاسی بساط سے باہر نکالنے کے لئے سازشوں کے جال بچھائے اور محض انتخابات میں اپنی کٹھ پتلی کو جتوانے کے لئے عدالتی فیصلہ انتخابات سے محض چند دن قبل کروا کر نواز شریف اور مریم نواز کو گرفتار کیا۔ اورعوامی مینڈیٹ ہائی جیک کر کے فتح کے شادیانے بجائے۔

ایک ان دیکھا گھاؤ

شاید نواز شریف اور مریم جب تک زندہ ہیں وہ دونوں کبھی بھی اس دکھ اور کرب کو بھلا نہیں پائیں گے کہ کلثوم نواز کی زندگی کے مشکل ترین وقت اور آخری لمحات میں دونوں باپ بیٹی کلثوم نواز کی عیادت نہ کر پائے ان کے لمس اور قرب سے محروم رہے۔ یہ ایک ایسا ان دیکھا گھاؤ ہے جو ہمیشہ روح کو گھائل کرتا رہتا ہے اور اس کے کرب کو وہی افراد سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے اس کو جھیلا ہو۔ لیکن ایک زخم پاکستان کے چہرے پر بھی لگا ہے اور یہ زخم بھی ہمیشہ یہ یاد دلاتا رہے گا کہ طاقت کی بساط کو سجانے والے نادیدہ ہاتھ اپنے مقاصد کو پانے کی خاطر کسی بھی حد سے گر سکتے ہیں۔



جمہوری پلڑے میں ایک اور قربانی کے وزن کا اضافہ ہوا ہے

ایک بیٹی اپنی ماں اور ایک خاوند اپنی بیوی کا آخری لمحات میں ساتھ نہ دے پائے۔ ایک کمزور عدالتی فیصلہ جو کسی بھی غیر جانبدار عدالت میں ایک دن کی کارروائی کے اندر کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے کو بنیاد بنا کر جو گندا کھیل وطن عزیز میں رچایا گیا اس نے سیاست کے میدانوں سے نکل کر رشتوں کے تقدس اور انسانی اقدار کو بھی ملیا میٹ کر ڈالا ہے۔ کلثوم نواز کی بیماری کو جھوٹ کہنے والے حضرات اب مزید پھبتیاں کسیں جگتیں لگائیں اور کلثوم نواز کی موت کو نواز شریف کے ناکردہ جرائم کے کھاتے ڈالیں اور کسی اگلی موت یا واقعہ کا انتظار کیجئے جو ان کی تفریح طبع کا سامان پیدا کر سکے۔

قربانیاں دینے کا ظرف بھی صرف عوامی رہنماؤں اور اصلی سیاستدانوں کے پاس ہی ہوتا ہے

یقین کیجئے ان جیسے افراد قابل ترس بھی ہیں اور قابل رحم بھی جو ناک کی سیدھ میں اپنے مہاتما لیڈر کی عقیدت میں اندھے ہو کر حمزہ عباسی اور عامر لیاقت جیسے افراد کی تقلید کرنے سے بھی باز نہیں آتے اور جنہیں ہالوسنیشن میں رکھ کر تبدیلی کی فرضی داستانوں پر خوش کر کے زندگی بسر کرنے پر قائل کر لیا جاتا ہے۔ نادیدہ قوتوں نے آج دیکھ لیا ہو گا کہ مقبول عوامی لیڈر کی مقبولیت کا راز کیا ہوتا ہے۔ یہ قربانیاں دینے کا ظرف بھی صرف عوامی رہنماؤں اور اصلی سیاستدانوں کے پاس ہی ہوتا ہے، بزدل آمر تو کمر درد کا بہانہ کر کے بھاگ جاتے ہیں اور کٹھ پتلی سیاستدان ایک دن کی قید سے گھبرا جایا کرتے ہیں۔



رہی بات کلثوم نواز صاحبہ کی تو وہ اس وقت آسمانوں سے مسکراتے ہوئے نیچے دیکھ رہی ہوں گی کہ انہوں نے نہ صرف ایک کامیاب بیوی، ایک کامیاب ماں کے طور پر زندگی گزاری بلکہ جمہوری بالادستی کی لڑائی لڑنے والی خواتین نصرت بھٹو، بینظیر بھٹو اور عاصمہ جہانگیر کے ساتھ اپنا نام بھی تاریخ کے پنوں میں امر کروا گئیں اور اپنے حاسدین اور دشمنوں سے پنجہ آزمائی کے لئے اپنی پرچھائی مریم نواز کو بھی تیار کر گئیں۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔