وقت کی سرشت چلتے رہنا اور تبدیل ہوتے رہنا ہے۔ گو وقت کا سفر ہمیشہ جاری و ساری رہتا ہے لیکن کچھ ساعتیں کچھ گھڑیاں ایسی ہوتی ہیں جو خوشگوار یا ناخوشگوار یادوں کا جھونکا بن کر ہمیشہ دل ناشاد کے ہمراہ رہتی ہیں۔ انہی میں سے ایک ایسی ساعت، ایک ایسا دن 11 ستمبر کا ہے جب بیگم کلثوم نواز گزشتہ برس اس جہان فانی سے کوچ کر گئیں۔ بیگم کلثوم نواز کی وفات جن حالات میں ہوئی انہیں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین اور اخلاقی اقدار کی پامالی کا بدترین دور قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایک عورت لندن میں بستر مرگ پر زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا تھی اور پاکستان میں میڈیا اور عمران خان کے پیروکار اس عورت کی بیماری کا مذاق اڑا رہے تھے۔
کبھی اس کی بیماری کو ڈھونگ قرار دیا جاتا اور کبھی سیاسی ہمدردی حاصل کرنے کا بہانہ۔ ایک جانب کلثوم نواز کی بیماری کو عمران خان اور ان کے حواریوں نے تماشہ بنائے رکھا تھا جبکہ دوسری جانب اس کے خاوند نواز شریف اور دختر مریم نواز کو ایک متنازعہ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں پاکستان میں پابند سلاسل کیا گیا تھا۔ نواز شریف اور مریم نواز ہفتے میں ایک بار کلثوم نواز سے فون پر چند منٹ بات کر سکتے تھے اور بے بسی سے دعائیں کرنے کے علاوہ ان کے پاس دوسرا راستہ کوئی نہیں تھا۔
یاد رہے نواز شریف اس وقت چاہتا تو بیگم کلثوم نواز کی بیماری کو جواز بنا کر مریم سمیت لندن میں قیام کر سکتا تھا۔ آخری ساعتوں میں نواز شریف اپنی شریک حیات اور مریم نواز اپنی ماں کے ساتھ موجود رہ سکتے تھے۔ لیکن ان دونوں باپ بیٹی نے پاکستان آ کر اپنی عزت اور نظریے کی جنگ لڑنے کو ترجیح دی۔ بیگم کلثوم نواز وفات تک اس بات سے لاعلم رہیں کہ ان کا خاوند اور ان کی چہیتی بیٹی پاکستان میں پابند سلاسل تھے۔ دوسری جانب نواز شریف اور مریم نواز جب تک جیئں گے اس بوجھ اور دکھ کے ساتھ جیئں گے کہ وہ آخری ایام بیگم کلثوم نواز کے ساتھ نہ گزار پائے۔
بیگم کلثوم نواز کی وفات پر طنز کے نشتر برساتے عمران خان کے اندھے عقیدت مند اور اس ملک کی مقتدر قوتیں جن کی انا کی تسکین سیاستدانوں کو نیچا دکھانے کی صورت میں ہی ہوتی ہے، انہیں شاید ادراک نہیں کہ بیگم کلثوم نواز نے وفات سے پہلے اپنی پرچھائی مریم نواز کی صورت میں تیار کی اور اسے باپ کے شانہ بشانہ مقتدر قوتوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونے والی بہادر عورت بنا ڈالا۔
وہ لڑائی جو بیگم کلثوم نواز نے مشرف کی آمریت کے خلاف ببانگ دہل شروع کی تھی اور جس کے خوف سے مشرف نے پسپا ہو کر نواز شریف کو سولی پر چڑھانے کے بجائے جلاوطنی کا راستہ دینے پر مجبور کیا تھا، آج بھی جاری و ساری ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ بیگم کلثوم نواز اس جہان فانی میں نہیں ہیں لیکن ان کی پرچھائی مریم آج بھی آمریت کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہے۔ اپنی ماں کی مانند مریم نے بھی پابند سلاسل ہونے سے قبل اپنی دلیری اور اپنے سیاسی بیانیے کے بل بوتے پر مقتدر قوتوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا۔ اب مقتدر قوتیں وقت تو گزار سکتی ہیں لیکن نوشتہ دیوار یہ ہے کہ مریم نے اپنے باپ کی شروع کی ہوئی جنگ کو اس کے منطقی انجام کے قریب لا چھوڑا ہے۔
پنجاب کی دھرتی جو قیام پاکستان سے اطاعت و فرمانبرداری کی سیاست کیلئے مشہور تھی وہاں سے ایک ایسی عورت کا جنم لینا انتہائی اچھنبے کی بات ہے جو مقتدر قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ مریم نواز کو اعصابی طور پر مضبوط بنانے اور سیاسی سمجھ بوجھ دینے کا سہرا مرحومہ بیگم کلثوم نواز کے سر جاتا ہے۔ جنہوں نے 2007 میں نواز شریف کی وطن واپسی کے فورا بعد بھانپ لیا تھا کہ ان کے خاوند کو مقتدر قوتیں ڈکٹیشن لیے بنا چلنے نہیں دیں گی اور ڈکٹیشن لینا ان کے خاوند نوے کی دہائی میں ہی چھوڑ چکے تھے۔ مسلم لیگ نواز میں چوہدری نثار جیسے سفید ہاتھیوں کو بھی مرحومہ کلثوم نواز پہچان چکی تھیں اس لیے بےحد کاوشوں کے بعد انہوں نے مریم کو میدان میں باپ کی رفاقت کیلئے اتارا اور وقت نے ثابت کر دیا کہ ان کا فیصلہ درست تھا۔
اگر آج مریم نواز سیاست میں نہ ہوتی تو نواز شریف کے پابند سلاسل ہونے کے بعد نواز شریف کا بیانیہ دم توڑ چکا ہوتا اور شاید مسلم لیگ نواز کو نوجوانوں پر مشتمل ووٹ بنک بھی میسر نہ آتا۔ کہتے ہیں کہ افراد مر جایا کرتے ہیں لیکن نظریات کبھی نہیں مرا کرتے۔ بیگم کلثوم نواز کی آمریت کے خلاف جدوجہد اور ان کا باد مخالف کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونے کا نظریہ آج بھی زندہ ہے اور مریم نواز کی صورت میں نئی منزلوں کا سفر طے کر رہا ہے۔
بیگم کلثوم نواز کی برسی ہر برس اس ملک کی مقتدر قوتوں اور تحریک انصاف کو یہ یاد دلوایا کرے گی کہ کینسر کے موذی مرض کے خلاف جنگ لڑتی عورت کا مذاق اڑا کر اور اس کی بیماری پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کر کے اپنے پستہ قامت ہونے کی محرومیاں مٹانے کی ناکام سعی کر کے شاید کچھ دیر ان کے بے رحم دلوں کو تسکین تو حاصل ہو گئی ہو گی لیکن اس رویے نے جس سیاسی اور سماجی تقسیم کی بنیاد رکھی ہے اس کو کم کرنا اب پستہ قامت تحریک انصاف کے بس میں نہیں ہے۔
دوسری جانب چونکہ بیگم کلثوم نواز صاحبہ ایک قد آور شخصیت تھیں اس لئے مر کر وہ نہ صرف اپنی بیماری کا مذاق اڑانے والوں کی کم ظرفی کو عیاں کر گئیں بلکہ جمہوری جدوجہد کے لگائے گئے پودے کو مریم کی شکل میں قد آور درخت بھی بنا گئیں۔
وقت گزر جائے گا کہ اس نے ہر صورت گزرنا ہے یہ تبدیل بھی ہو گا کہ تبدیلی اس کی سرشت ٹھہری لیکن ثاقب نثار کے دور کا سیاہ نظام عدل اور تحریک انصاف کا غیر انسانی رویہ بیگم کلثوم نواز کی برسی پر ہر سال یہ یاد دہانی کرواتا رہے گا کہ مقتدر قوتوں کی کیاریوں میں پھلنے پھولنے والی جماعت تحریک انصاف، اس کے پیروکار اور میڈیا کا ایک حصہ اس حد تک گر گیا تھا کہ اس نے مائیں بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ییں کی اخلاقی روش کو ختم کر کے سیاسی مخالفین کی وفات پر بھی گالیوں اور طعنہ زنی کے زریعے سماج میں نفرتیں بانٹنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ جبکہ دوسری جانب بیگم کلثوم نواز صاحبہ نے پہلے مشرف کی آمریت کو للکار کر اور پھر مریم نواز کی صورت میں پنجاب کی جمہوریت سے نابلد دھرتی کو مریم کی صورت میں ایک ایسی بیٹی عطا کی جس نے مختصر سے عرصے میں پنجاب کے کردہ اور ناکردہ گناہوں کا بوجھ اتار دیا اور آنے والے وقت میں اب وہ جمہوریت کا علم تھامے فاتح بھی بن سکتی ہے۔
ایک قد آور شخصیت اور بونوں کے درمیان یہی فرق ہوتا ہے۔ بونے اپنے لیے اندھے مریدین ڈھونڈتے ہیں، خود پرستی میں مبتلا ہوتے ہیں دوسروں کو نیچا دکھا کر خوش ہوتے ہیں اور مقتدر قوتوں کی اطاعت کرتے ہوئے بھیک میں ملے اقتدار کو سرمایہ حیات جانتے ہیں جبکہ بیگم کلثوم نواز صاحبہ جیسی قد آور شخصیات ہوا کے مخالف چلنے کا طریقہ سکھلاتی ہیں اور کسی کو نیچا دکھانے کے بجائے نظریات کی صورت اپنی پرچھائیاں چھوڑ کر سماج کے تغیر کو ثبات دینے کا فریضہ سرانجام دیتی ہیں۔
کالم نگار
مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔