Get Alerts

حیدرآباد؛ خواتین امیدواروں کو جنرل نشستوں پر ٹکٹ کیوں نہیں ملتا؟

اگر 2002 سے 2018 تک کے انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو حیدرآباد سے اب تک صرف 3 خواتین مخصوص نشستوں پر سندھ اسمبلی پہنچی ہیں جن کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا جبکہ جنرل نشستوں پر اسمبلی پہنچنے والی خواتین کی تعداد صفر ہے۔

حیدرآباد؛ خواتین امیدواروں کو جنرل نشستوں پر ٹکٹ کیوں نہیں ملتا؟

حیدرآباد پاکستان کا آٹھواں اور سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہاں کی آبادی تقریباً 21 لاکھ 99 ہزار 928 افراد پر مشتمل ہے، جس میں 10 لاکھ 54 ہزار 407 خواتین شامل ہیں۔ اس حساب سے حیدرآباد ڈویژن سے قومی اسمبلی کی 9 جبکہ سندھ اسمبلی کی 6 نشستیں ہیں۔

حیدرآباد کی انتخابی سیاست کو دیکھا جائے تو یہاں 1992 سے لے کر ایم کیو ایم کی ہی حکومت رہی ہے، لیکن حالیہ 2023 کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے ایم کیو ایم کو سپرسیڈ کر دیا ہے اور پیپلز پارٹی حیدرآباد کے سیاسی منظرنامے پر چھائی نظر آ رہی ہے۔ حیدرآباد کے میئر کا دفتر پیپلز پارٹی کے حصے میں آنے کے بعد حیدرآباد کی سیاست میں اگر خواتین کے کردار کی بات کی جائے تو خواتین سیاست کے میدان میں کافی متحرک نظر آتی ہیں۔ چاہے وہ گراس روٹ لیول کی سیاست ہو، بلدیاتی انتخابات ہوں، یا پھر سیاسی تنظیموں کی سرگرمیاں۔

حیدرآباد کی جنرل نشستوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو کچھ مایوسی سی ہوتی ہے کیونکہ حیدرآباد کی جنرل نشستوں پر شاذ و نادر ہی خواتین انتخابات میں حصہ لیتی نظر آتی ہیں۔ ماضی میں اس کی مختلف وجوہات رہی ہیں جیسے پدرشاہی نظام، معاشرتی رکاوٹیں اور ہماری روایتی اقدار۔ اسی کو مدِنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ہر سیاسی جماعت کو پابند کیا تھا کہ وہ کم از کم 5 فیصد جنرل نشستوں پر خواتین کو ٹکٹ دیں گی۔ اس سلسلے میں جب حیدرآباد کی مقامی خواتین سیاست دانوں سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ اب زیادہ خواتین سیاست کے میدان میں آ رہی ہیں، ان میں سیاسی شعور اُجاگر ہو رہا ہے لیکن ابھی بھی آگاہی اور سینسیٹائزیشن کی ضرورت ہے تا کہ زیادہ خواتین سیاست کے میدان میں شامل ہوں۔

ایم کیو ایم کی سحر راشد کا کہنا ہے کہ خواتین کے لیے مشکلات صرف سیاست میں نہیں ہیں بلکہ ہر شعبے میں ہیں لیکن اب لوگ باشعور ہو رہے ہیں اور خواتین کی قیادت کو کھلے دل سے ناصرف قبول کر رہے ہیں بلکہ ہر سطح پر انہیں سپورٹ بھی کر رہے ہیں۔ تعلیم کو عام کر کے، خواتین کو مواقع فراہم کرنے سے خواتین کی شراکت داری کو مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔

شبانہ خان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں اور حیدرآباد ڈویژن لیڈیز ونگ کی سیکرٹری ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ عام ووٹر خواتین امیدوار کے متعلق کیا سوچتا ہے، کیا وہ خاتون امیدوار کو جنرل سیٹ پر ووٹ دیتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ عام ووٹر کی رائے خواتین کے متعلق 50-50 ہے۔ مردانہ سماج ہے، اس لئے مرد ووٹرز کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ عورت کو سیاست کا کیا پتہ؟ سیاست کرنا عورت کے بس کی بات نہیں، ایسے لوگ خاتون امیدوار کو ووٹ دینے سے گریز کرتے ہیں۔ جبکہ عام ووٹرز میں اگر خواتین اور نوجوانوں کی بات کی جائے تو وہ خواتین کے کردار کو سراہتے ہیں، حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور خواتین امیدوار کو ووٹ دے کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔

یوں تو قومی اسمبلی میں خواتین کی 60 اور سندھ اسمبلی میں 29 مخصوص نشستیں ہیں۔ جس کے تحت ہر سیاسی جماعت کو الیکشن میں جنرل سیٹوں پر کامیابی کے مطابق مخصوص نشستیں تفویض کی جاتی ہیں لیکن اکثر یہ رجحان بھی پایا جاتا ہے کہ مخصوص نشست پر اسمبلی پہنچنے والے اراکین کو تعصب کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ حنا دستگیر جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے اور جامشورو ضلع سے خواتین کی مخصوص نشست پر 2018 سے 2023 تک سندھ اسمبلی کی ممبر رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ مخصوص نشست پر اسمبلی پہنچنے والوں کو کسی قسم کے تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بلکہ مخصوص نشست والوں کو بھی ایسے ہی ٹریٹ کیا جاتا ہے جیسے جنرل نشست والوں کو۔ جتنا جنرل سیٹس پر الیکشن میں کامیاب ہونے والوں کو مواقع دیے جاتے ہیں، ایسے ہی مخصوص سیٹوں والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔

اس سلسلے میں جب عام ووٹر کی رائے لی گئی تو سیف اللہ کا کہنا تھا کہ ہم خواتین کو ووٹ دیں گے، ضرور دیں گے، لیکن ہمارے ہاں خواتین جنرل نشست پر کھڑی نہیں ہوتیں جبکہ روبیہ نامی خاتون ووٹر کا ماننا ہے کہ بھلے خاتون امیدوار کے جیتنے کے امکانات کم ہی کیوں نہ ہوں، پھر بھی وہ انہیں ہی ووٹ دیں گی، کیونکہ ایسے ہی لوگوں میں شعور آئے گا اور خواتین امیدوار کو قبول کرنے کے لیے ذہن سازی کی ابتدا ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں بھی انہوں نے اپنا ووٹ خاتون امیدوار کو ہی دیا تھا جبکہ اُن کے ہارنے کے امکانات واضح تھے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مین سٹریم پارٹیز میں الیکشن ٹکٹ دینے کا اور پارٹی میں عہدے دینے کا معیار صرف پرفارمنس ہی ہے تو پھر کیوں جنرل سیٹوں پر خواتین کو ٹکٹ نہ ہونے کے برابر دیا جاتا ہے اور جہاں اگر دیا بھی جاتا ہے تو وہاں یا تو پارٹی کا ووٹ بنک کم ہوتا ہے، یا پھر انتخابی سیاست کی مہم چلانے کے اخراجات اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ گراس روٹ لیول کی خاتون رکن کے لیے ممکن ہی نہیں ہوتا کہ وہ کامیاب انتخابی مہم چلا سکے۔

کچھ تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ سیاسی جماعتیں زیادہ تر مخصوص نشستوں پر بھی خاندانی سیاست کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور ترجیحی لسٹ جو الیکشن کے بعد مخصوص نشستوں کے لیے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی جاتی ہے، وہ اس بات کی تائید کرتی نظر آتی ہے کہ جہاں کم و بیش ہی کسی گراس روٹ ورکر کو مخصوص نشست کے لیے ٹاپ پریفرنسز میں رکھا جاتا ہے۔

جماعت میں ٹکٹ کی تقسیم اور پروسیجر کے بارے میں جب پی پی پی کی حنا دستگیر اور ایم کیو ایم کی سحر راشد سے دریافت کیا گیا تو مقامی قیادت کا کہنا تھا کہ اس بات کا فیصلہ ملٹی لیول پر لیا جاتا ہے، پہلے امیدوار پارٹی کو درخواست لکھتا ہے، اُس کے بعد قیادت امیدوار کی پرفارمنس پر فیصلہ کرتی ہے، جس میں تنظیم کی اعلیٰ قیادت ضلعی امیدوار کی قابلیت اور کارکردگی کو مدنظر رکھ کر امیدوار کے ٹکٹ کے لیے مقامی قیادت سے مشورہ کرتی ہے۔ مختصراً پارٹی کی جانب سے کسی بھی امیدوار کو ٹکٹ دینے کا معیار کارکردگی ہی بتایا گیا۔

جب کارکردگی ہی معیار ہے تو کیا وجوہات ہیں کہ حیدرآباد سمیت ملک بھر سے جنرل سیٹوں پر انتخابات لڑنے کے لیے کم خواتین دیکھنے کو ملتی ہیں؟ شبانہ خان کا اس کے متعلق کہنا ہے کہ مخصوص نشستوں کی موجودگی میں پارٹی سمجھتی ہے کہ خواتین کو ان پر ایڈجسٹ کر لیں گے۔ جبکہ دوسری وجہ جنرل سیٹوں میں خواتین کی اپنی عدم دلچسپی ہے، لیکن PPP میں خواتین کو جنرل سیٹ پر نامزد کرنے کی اعلیٰ مثال موجود ہے۔

اگر 2002 سے 2018 تک کے انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو حیدرآباد سے اب تک صرف 3 خواتین مخصوص نشستوں پر سندھ اسمبلی پہنچی ہیں جن کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا جبکہ جنرل نشستوں پر اسمبلی پہنچنے والی خواتین کی تعداد صفر ہے۔ خواتین امیدواروں سے متعلق عوامی سطح پر مختلف تاثرات پائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ خواتین کو اگر مواقع فراہم کیے جائیں تو ناصرف مثبت اور کارآمد فیصلہ سازی کے عمل میں بہتری آئے گی بلکہ سسٹم کے انکلوسیو ہونے کی وجہ سے معاشرتی اقدار بھی تبدیل ہوں گی۔ اس کی اہم مثال ہم ان ممالک میں دیکھتے ہیں جہاں خواتین کو فیصلہ سازی کے عمل میں اختیار حاصل ہے وہاں ڈویلپمنٹ انڈیکیٹر اپنی مثال آپ ہیں۔ اس کی واضح مثال نیوزی لینڈ ہے۔ وزیر اعظم جیسنڈا آرڈن کے حکومتی دورانیے میں نیوزی لینڈ میں مختلف ڈویلپمنٹ انڈیکیٹرز میں مثبت کارکردگی دیکھی گئی۔

پاکستان سمیت دنیا کے 40 سے زائد ملکوں میں 2024 میں قومی انتخابات منعقد ہونے جا رہے ہیں۔ بلومبرگ کی جانب سے 2024 کو دنیا بھر میں الیکشن کا سال قرار دیا جا رہا ہے۔ انتخابات میں امیدوار اور ووٹرز لازم و ملزوم ہیں۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے تازہ ترین ووٹر لسٹ کے مطابق نئے ووٹرز کے اندراج میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ جس میں مرد و خواتین دونوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ کل رجسٹرڈ ووٹرز کی مجموعی تعداد 12.69 ملین سے زائد ہے، جس میں 5.84 ملین خواتین ووٹرز اور 6.85 ملین مرد ووٹرز شامل ہیں۔ اگر 2023 کی مردم شماری کی بات کی جائے تو خواتین کی آبادی تقریباً 49.6 فیصد بتائی جا رہی ہے۔

آبادی کے تناسب سے خواتین کو انتخابی میدان میں بھی جگہ دی جائے تو ناصرف پاکستان کے فیصلہ ساز ایوانوں میں مثبت تبدیلی آئے گی بلکہ پاکستان کو پیش نظر صنف کی بنیاد پر معاشرتی تفرقات سے بھی چھٹکارا مل سکتا ہے، جس کی شکار ناصرف خواتین ہوتی ہیں بلکہ اس کا اثر معاشرے کے ہر فرد پر پڑتا ہے۔ خواہ اس کا تعلق کسی بھی عمر، صنف یا شعبے سے ہو۔

ثوبیہ سلیم کا تعلق حیدر آباد سے ہے اور وہ ملٹی میڈیا پریکٹیشنر ہیں۔