کے الیکٹرک کی فنکاریاں

کے الیکٹرک کی فنکاریاں
کورونا اور انتہائی  گرمی کے سبب کراچی کے صنعتی علاقے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ پاکستان کے تجارتی مرکز ’ کراچی‘ کے لوگوں کے لیے بارش کا موسم بھی رحمت کی جگہ زحمت بن گیا ہے۔ شہر قائد کراچی کی عوام اس وقت دوہرے عذاب میں مبتلا ہے۔چلچلاتی گرمی میں کے الیکٹرک کی جانب سے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ بجلی کی آٹھ سے دس گھنٹے تک کی بندش نے شہریوں سے دن کا چین اور رات کا سکون بھی چھین لیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ شہریوں کو ایک تو بجلی مل  نہیں رہی ہےاور اس ہی نہ ملنے والی بجلی کی مد میں زائد بلنگ کی زریعے مزید کوفت سے بھی گزارا جارہا ہے۔

کراچی میں مون سون کی ہلکی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔جس کے بعد کے الیکٹرک نے مرمت اور احتیاط کے نام پر شہریوں کو بجلی سے محروم کردیاہے۔ بارشوں سے پہلے لوڈ شیڈنگ اور کیبل فالٹ نے شہریوں کودوہری اذیت میں مبتلا کررکھاہے۔ رات گئے سےکراچی کےمخلتف علاقوں میں بوندا باندی کا سلسلہ جاری ہے۔ گلشن اقبال ، لیاقت آباد ، کورنگی ، نارتھ کراچی اور اورنگی ٹاؤن میں بجلی کی فراہمی معطل  کردی گئی ہے۔ کہیں احتیاط کے نام پر اور کہیں  کیبل فالٹ کے نام پر بجلی کی فراہمی معطل ہے۔

اس مسئلے کا حل نکالنے کے بجائے اقتدار کے ایوانوں پر بیٹھے افراد ایک دوسرے پر الزام تراشی، سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور احتجاجی مظاہروں پر اکتفا کیے بیٹھے ہیں۔ جیسے آج  ہمارے وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر نے قومی اسمبلی میں  کہا کہ ’ کے الیکٹرک کی نجکاری پاکستان مسلم لیگ (ق) کی حکومت میں کی گئی لیکن ایسا لگ رہا ہے جیسے کے الیکٹرک کی نجکاری تحریک انصاف کی حکومت نے کی ہو۔‘

کے الیکٹرک کی جانب سے کراچی کے شہریوں پر نازل کی جانے والی یہ افتاد اب ہر سال کا رونا بن چکی ہے ۔اس معاملے پر بھی ایک ادارہ دوسرے ادارے کو مورد الزام ٹھہراتا ہے اور اس رسہ کشی کا شکار صرف اور صرف عوام ہوتے ہیں۔  اور مسلسل ہورہے ہیں۔

    گزشتہ جمعہ کو ہی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے کے الیکٹرک کے صارفین کیلئے بجلی کی قیمت میں فی یونٹ تقریبا تین روپے کا اضافہ کیا تھا۔ کے الیکٹرک نے ایک بیان میں طویل لوڈشیڈنگ کے پیچھے فرنس آئل کی کمی اور ایس ایس جی سی کی جانب سے گیس کی فراہمی میں پچاس  ایم ایم سی ایف ڈی کمی کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ان تمام وجوہات کی بنا پر بجلی کی فراہمی تین  ہزار ایک سو پچاس میگا واٹ سے کم ہو کر اٹھائیس سو میگا واٹ رہ گئی ہے۔

سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ نے کے الیکٹرک کے دعوے کو جھوٹ قراردیتے ہوئے کہا تھا کہ کے الیکٹرک کو دوسوچالیس ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کی جارہی ہے جو معمول کے ایک سو نوے سے بھی پچاس ایم ایم سی ایف ڈی زیادہ ہے۔

اس بیان در بیان بازی کے بعد کے الیکٹرک کے سربراہ مونس علوی نے گزشتہ ماہ کی انتیس تایخ کو اس بحران کے ختم ہونے کا دعوٰی کیا تھالیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے ۔

اور اس نہ وفا ہونے والے وعدے کے باعث ملک کے عوام کیساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں اور بالخصوص کراچی کے سیاسی رہنماوں کا صبر جواب دیتا جارہا ہے۔ کے الیکٹرک کے دفتر کے باہر سیاسی جماعتوں اور کارکنوں کا احتجاج معمول کی بات بن چکا ہے ۔ ہر آئے دن کے الیکڑک کے سامنے کوئی نہ کوئی احتجاج ہورہا ہوتا ہے۔

اور اب وفاقی حکومت کے اتحادی اور وفاقی حکومت کے ساتھی  اپنے ہی وزراءاور اپنے ہی وزیراعظم کی رٹ قائم نہ رہنے اور بات نہ سنی جانے کے گلے کرتے دکھ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے ایم این اے عامر لیاقت نے تو اپنے ہی وفاقی وزیر عمر ایوب کیخلاف چارج شیٹ پیش کردی اور  کل قومی اسمبلی کے فلور پرکراچی میں بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ پر توجہ دلاو نوٹس پر جواب دیتے ہوئے ہمارے وفاقی وزیر پاور ڈیویژن عمر ایوب نے کہا کہ    ’ کے الیکٹرک کا معاملہ کئی سالوں سے ہے، اسے نیشنل گریڈ سے مزید بجلی درکار ہے، ہم کے ای کو 200 میگاواٹ مزید بجلی دیں گے، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم کے الیکٹرک کے مسائل حل کریں‘۔
کراچی کے رہائشیوں کے آنکھوں دیکھے حال کے مطابق دوہزار پانچ میں نجکاری کے بعد سے کے الیکٹرک نے کراچی میں بجلی کے نظام کو صرف جگاڑ کی بنیاد پر چلانے کی کوششیں کی۔

کے الیکٹرک نے سب سے پہلے تانبے کی  تاریں تبدیل کر کے چاندی کی  تاریں لگائیں جو بجلی کالوڈ برداشت نہیں کر پایئں۔اور اب چاندی کے تاریں بھی تبدیل کر کے بنڈل کیبل لگادے گیے ہیں اور اس بنڈل کیبل کی آڑ میں پرانے سادہ میٹر تبدیل کرکے ڈیجیٹل تیز رفتار میٹر لگا دیے گیے ہیں۔ کارساز کے علاقے میں  بجلی کی تاریں گرنے سے موٹرسائیکل پر سوار بچاس سالہ بزرگ جاں بحق ہوگئے۔ کے الیکٹرک نے محض اظہار افسوس کر  کے جان چھڑالی۔

دو روز کےدوران  کرنٹ لگنے کے واقعات میں  سات افراد کی جان جاچکی  ہے۔ ناگن چورنگی  میں دو مختلف واقعات میں بھی  کرنٹ لگنے سے  بچے سمیت دو افراد کی جان چلی گئی۔ کریم آباد میں  مسجد کے  قریب  کام کے دوران کرنٹ لگنے سے  مزدور جاں بحق ہوگیا۔  منگل کو پرانا گولیمار میں  جنریٹر چلاتے ہوئے  کرنٹ لگنے سے  دو افراد  اور  کیماڑی مسان چوک  پر پان کے کیبن  سے کرنٹ لگنے  سے عثمان  نامی لڑکا چل بساتھا۔

اس کھلم کھلا ناانصافی کے باوجود وفاق اور ریگولیٹری ادارے کا کردار خاموش تماشائی کے سوا کچھ نہیں دکھتا۔

حالات کی سنگینی اور شدید مزاحمت کا مظاہرہ دیکھتے ہوئے بالاخرنیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی یا نیپرا نے لوڈشیڈنگ سے متعلق شکایات پر نوٹس لیتے ہوئے عوامی سماعت کا فیصلہ کرلیا ہے۔ نیپرا کے بقول یہ عوامی سماعت دس جولائی کو ہوگی جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز اور شہری شریک ہوکر اپنی شکایات بیان کرسکتے ہیں

اس سے قبل بھی نیپرا نے لوڈ شیڈنگ اور زائد بلنگ پر کے الیکٹرک کو نوٹس جاری کیا تھا، لیکن  اس کا کیا نتیجہ نکلا ؟ تاحال کوئی خبر نہیں ۔

دوسری جانب سندھ حکومت کے بقول کے الیکٹرک کی اجارہ داری اور من مانی کے پیچھے وفاق کاوہ مجرمانہ صرف نظر ہے جو اس ادارے کو چلانے والے ابراج گروپ کے ساتھ برتا جارہا ہے کیونکہ یہ گروپ مبینہ طور پر تحریک انصاف کیلئے فنڈنگ کاانتظام کرتا رہا ہے۔
وفاقی حکومت آئے روزپیدا ہونے والے بحرانوں کے پیچھے مافیاز کے کردار کو ذمہ دار ٹہراتی ہے اور اس عزم کا اظہار بھی کرتی ہے کہ وہ ملک میں موجود تمام مافیاز کو  اختتام تک پہنچائی گی لیکن بدقسمتی سے ہر بحران کا منطقی انجام حکومت کی جانب سے ان ہی مافیاز کے آگے گھٹنے ٹیکنے کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔

آج گورنر سندھ عمران اسمایئل کی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ کے الیکٹرک اور کراچی کی عوام کے مسائل کے لیے ملاقات جاری ہے۔ عمران خان نے ان کو ہدایت دی ہے کہ کے الیکٹرک اور عوامی مسائل کا حل ممکن بنایا جائے۔

کیا کراچی میں بجلی کے اس بحران اور کے الیکٹرک سے ڈیل کرنا بھی وفاقی حکومت اور بالخصوص وفاقی اداروں کیلئے مافیا سے ٹکر لینے جیسا بن گیا ہے ؟

۔

مصنفہ سما نیوز پر پروڈیوسر ہیں، اور اس سے قبل مختلف صحافتی اداروں کے ساتھ منسلک رہ چکی ہیں۔