وطن عزیز میں جبر کا دور جاری ہے۔ سچ بولنے پر پاہند سلاسل کر دیا جاتا ہے۔ سوال اٹھائے پر یا تو آپ لاپتہ افراد میں شمار ہو جاتے ہیں یا پھر آپ کو نوکری سے برخاست کر دیا جاتا ہے۔
کچھ ایسا ہی سینیئر صحافی اور صدر لاہور پریس کلب اعظم چودھری کے ساتھ ہوا۔ انہوں نے وزیر اعظم پاکستان اور ان کی کابینہ کے چند وزرا کے سامنے کلمہ حق بلند کیا تو سزا کے طور پہ ان کو پاکستان ٹیلی ویژن کی نوکری سے برخاست کر دیا گیا۔
اعظم چودھری پچھلے ایک سال سے پاکستان ٹیلی ویژن کے ساتھ بطور تجزیہ کار وابستہ تھے۔ ہفتے میں تین دن پی ٹی وی نیوز پر ایک ٹاک شو میں بطور تجزیہ کار شریک ہوتے تھے۔ ان کو پاکستان ٹیلی ویژن کی جانب سے اس نوکری کی پیشکش کی گئی تھی اور ایک سرکاری مراسلہ کے ذریعے ان کی نوکری کنفرم بھی کی گئی مگر چونکہ ارباب اختیار کو سچ سننے اور برداشت کرنے کی عادت نہیں ہے، اس لیے عیدالاضحٰی کے دوسرے روز جب گورنر ہاؤس لاہور میں وزیر اعظم اور چند وزرا نے پریس کانفرنس کی تو لاہور پریس کلب کے صدر اعظم چودھری پاکستان ٹیلی ویژن لاہور مرکز کی جانب سے اس میں شامل ہوئے۔
پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے وزیر اعظم سے یہ سوال پوچھا کہ وزیر اعظم صاحب آپ کی حکومت میں سچ بولنے، آزادی اظہار اور آزادی صحافت پر سخت ترین سنسرشپ کیوں عائد ہے؟ اس وقت شہباز شریف نے آئیں بائیں شائیں کر کے سوال کا جواب تو دے دیا مگر بعد میں وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے جنبش قلم سے اعظم چودھری کی نوکری ختم کر دی اور ثابت کر دیا کہ ملک میں جبر کا دور جاری ہے، یزیدیت انتہا پر ہے اور تمہاری جرات کیسے ہوئی کہ شہنشاہ معظم کے سامنے سوال بلند کرو۔
موجودہ حکومت کا دور صحافیوں پر بہت بھاری ثابت ہوا ہے۔ ارشد شریف کو شہید کر دیا گیا۔ عمران ریاض ابھی تک لاپتہ ہے۔ صابر شاکر اور ڈاکٹر معید پیرزادہ بیرون ملک مقیم ہیں۔ شاہد اسلم، ایاز امیر، جمیل فاروقی، سمیع ابراہیم اور صدیق جان گرفتار ہوئے۔ عارف حمید بھٹی آف ایئر رہے، ہارون الرشید اور عدنان عادل کو سیاسی موضوعات پر بات کرنے سے منع کر دیا گیا اور اب اعظم چودھری کو نوکری سے برخاست کر دیا گیا ہے۔
اعظم چودھری عرصہ 30 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ جنگ اور نوائے وقت جیسے بڑے اخبارات میں کام کر چکے ہیں۔ طویل عرصے تک اب تک نیوز کے ساتھ وابستہ رہے۔ آپ ایک سال سے پی ٹی وی نیوز سے وابستہ تھے۔ 3 مرتبہ لاہور پریس کلب کے صدر منتخب ہوئے اور اور اس وقت بھی صدر ہیں۔ جب اتنے سینیئر صحافی کے ساتھ یہ کچھ ہو رہا ہے تو جونیئر صحافی تو کسی شمار میں نہیں ہو گا۔
وطن عزیز پر طاری ظلم کی یہ سیاہ رات جانے کب ختم ہو گئی اور آزادی کا سورج نہ جانے کب طلوع ہو گا؟ جن معاشروں میں سوال پوچھنے پر پابندی عائد کر دی جائے اور پھر اپنے آپ کو جمہوریت کے علمبردار کہا جائے تو ایسی جمہوریت اور ایسے علمبرداروں پر چار حرف ہی بنتے ہیں۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔