سابق وزیر اعظم عمران خان کے سابق مشیر داخلہ اور احتساب مرزا شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ میں بھگوڑا نہیں ہوں برطانیہ میں موجود ہوں ہر سوال کا جواب دوں گا۔
سابق مشیر احتساب شہزاد اکبر نے نجی نیوز چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھگوڑا اس کو کہتے ہیں جو اشتہاری مجرم (پروکلیم آفینڈر) ہو۔ ابھی تک نیب کی طرف سے میرے گرفتاری کے وارنٹ بھی نہیں نکلے۔ نیب کے نوٹسز ملتے رہے ہیں جن کا باقاعدہ جواب دیتا رہا ہوں۔ نیب نے سوال نامہ بھیجا ہے اس کا بھی جواب دیا ہے۔ نیب کی جانب سے ابھی تک میرے وارنٹ جاری نہیں کیے گئے ہیں۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ نیب کو کہہ چکا ہوں کہ سوالات کرنے ہیں تو ویڈیو لنک پر موجود ہوں۔ ہر سوال کا جواب دوں گا۔ سپریم کورٹ میں سماعتیں ویڈیو لنک کے ذریعے ہوسکتی ہیں تو مجھ سے سوال جواب ویڈیو لنک کے ذریعے کیوں نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے نوٹسز کو لے کر اسلام آباد ہائی کورٹ بھی جاچکا ہوں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جج صاحب نے بھی اس حوالے سے تبصرہ کیا تھا کہ آپ کیوں انہیں (شہزاد اکبر کو) بلانے پر بضد ہیں؟ کیا آپ شہباز گل والا سلوک ان کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں؟
شہزاد اکبر نے کہا کہ میرے بھائی اور اظہر مشوانی کے بھائی کو اٹھایا گیا ہے۔ عدالتیں میرے بھائی کی بازیابی کا حکم دے چکی ہیں لیکن حال سامنے ہے۔ ایسے بہت سے لوگوں کو اٹھایا گیا ہے جن کا ابھی تک علم ہی نہیں ہے۔
ایک سوال کے جواب میں شہزاد اکبر نے کہا کہ این سی اے کیس کو 190 ملین سے لے جاکر القادر ٹرسٹ کہنا شروع کردیا۔ این سی اے کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ہمارا نام استعمال نہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ پورا معاملہ این سی اے سے جڑا ہوا ہے۔ یہ کیس بغض چیئرمین پی ٹی آئی پر بنا ہے۔ کیس کو ڈیڑھ سال ہوگیا متعدد پریس کانفرنس ہوئیں پر کوئی ثبوت نہیں آیا۔
واضح رہے کہ 10 جولائی کو لندن میں میڈیا نمائندگان سے غیر رسمی گفتگو کے دوران شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ ملک کی موجودہ حالت اور تباہی کے ذمہ دار سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ہیں۔ مجھے پہلے ہی معلوم ہو گیا تھا کہ ہماری حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے گا۔نواز شریف اچھے آدمی تھے جبکہ جنرل باجوہ ہماری پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تھے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے این سی اے کے 190 ملین پاؤنڈز سیٹلمنٹ کے کاغذات دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا کو ٹافی دی گئی۔ فیصل واوڈا نے کہا انکل دستخط کہاں کروں؟ شہباز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کا چسکا لگ چکا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے مجھے ایگزیکٹو اختیارات نہیں دئیے تھے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل پی ٹی آئی دور میں ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان کے مشیر احتساب شہزاد اکبر کا ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں نام ڈالنے پر ردعمل سامنے آگیا۔
گزشتہ برس اگست کے دوران شہزاد اکبرکا کہنا تھا کہ این سی اے (نیشنل کرائم ایجنسی برطانیہ) سیٹلمنٹ نیب انکوائری پر نیب کو دو بار مراسلہ لکھا کہ میرا بیان ویڈیو لنک پریا لندن ہائی کمیشن میں لے لیا جائے۔
واضح رہے کہ 21 جون کو قومی احتساب بیورو ( نیب) کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماوَں زلفی بخاری اور شہزاد اکبر کونیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) 190 ملین پاؤنڈز کیس اور القادر یونیورسٹی کیس میں طلبی کے نوٹسز جاری کیے تھے۔
نیب کے بھیجے گئے نوٹس میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے ذاتی فائدے کیلئے 190 ملین پاؤنڈ کی غیر قانونی منتقلی میں بطور پبلک آفیسر ہولڈر اختیارات کے ناجائز استعمال کیے۔
نیب کی طرف سے شہزاد اکبر اور زلفی بخاری کو 23 جون کو راولپنڈی نیب کے دفتر طلب کیا گیاتھا تاہم دونوں رہنماوَں نے پیشی سے معذرت کر لی تھی۔
زلفی بخاری نے نیب کو تحریری جواب جمع کراتے ہوئے پیش ہونے سے معذرت کرلی، انہوں نے کہا کہ بیرون ملک ہونے کے باعث پیش نہیں ہوسکتا، درخواست ہے کہ پیشی کی تاریخ میری واپسی تک ملتوی اور نیب انکوائری رپورٹ فراہم کی جائے۔
دوسری جانب سابق مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے لندن سے بھیجے گئے اپنے تحریری جواب میں بتایا کہ تین بار پہلے خط لکھ کر ویڈیو لنک پر بیان کی پیشکش کر چکا ہوں، پاکستانی سفارتخانے میں بھی بیان قلمبند کروانے پر رضامندی دکھائی، اب بھی ویڈیو لنک پر بیان قلمبند کروانے کو تیار ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اب میں پاکستان میں رہتا ہی نہیں ہوں، قانونی طور پر برطانیہ کا رہائشی ہوں، پاکستان کے میرے ایڈریس اب میرے نہیں، زندگی کو خطرات ہیں اس لئے برطانیہ کا ایڈریس شئیر نہیں کرسکتا، لہٰذا نیب نے جو بھی نوٹس بھیجنا ہو ای میل کرے۔
اس سے قبل 21 مئی کو اسلام آباد پولیس نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے سابق مشیر داخلہ اور احتساب مرزا شہزاد اکبر اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے افسر سمیت دیگر افراد کے خلاف مختلف مقدمات درج کیے تھے۔
وفاقی پولیس نے ایک کاروباری شخصیت اور دبئی کے رہائشی عمر فاروق ظہور کی شکایت پر شہزاد اکبر، ایف آئی اے افسر مردان علی شاہ، خوش بخت، مریم مرزا، مائرہ خرم اور عمید بٹ کے خلاف پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کے سیکشن 420، 468، 471، 385، 396، 389، 500 اور 506 کے تحت مقدمات درج کیے ہیں۔
خیال رہے کہ عمر فارق ظہور وہ شخصیت ہیں جنہوں نے اعتراف کیا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے توشہ خانہ کی قیمتی گھڑی انہیں فروخت کی تھی۔