نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت میں چلنے والے کیسز 9 جون کی مقرر کردہ ڈیڈ لائن پر بھی اختتام کی جانب نہیں بڑھ سکے۔ اورعدالت کے جج محمد بشیر اور ان کے ساتھی جج نے اعلیٰ عدلیہ سے استدعا کی ہے کہ ان کیسز کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے انہیں مزید وقت دیا جائے۔ جس پر سپریم کورٹ کی جانب سے مزید ایک ماہ کی مہلت دے دی گئی۔ وہ کیسز جنہیں سپریم کورٹ نے دو ماہ کے اندر نمٹانے کا حکم دیا تھا تاریخ پر تاریخ اور سپریم کورٹ سے بارہا مزید وقت لینے کے باوجود مکمل نہیں ہونے پائے۔ ان کیسز کو التوا اور تاخیر کا شکار کر کے دراصل پس پشت قوتیں انتخابات سے قبل نواز شریف کو جیل بھیجنے کی حماقت نہیں کرنا چاہتیں۔ عدالت سے نااہلی کے بعد پنجاب میں جو ہمدردی کی لہر نواز شریف کیلئے اٹھی، وہ پس پشت قوتوں کے ساتھ ساتھ خود نواز شریف کیلئے بھی باعث حیرت تھی۔
پنجاب میں اکثریت کی ہمدردی نواز شریف کے ساتھ نظر آتی ہے
آپ اس وقت پڑھے لکھے طبقے کا جائزہ لیجئے یا پھر عام مزدور پیشہ طبقے کا، پنجاب میں اکثریت کی ہمدردی نواز شریف کے ساتھ نظر آتی ہے۔ ایسے موقع پر نواز شریف اور مریم نواز کو احتساب عدالت کے ذریعے نشانہ بنا کر پابند سلاسل کرنے کا مطلب مسلم لیگ نواز کیلئے پنجاب بھر سے ہمدردی کے ووٹ بنک میں اضافہ ہے۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ بار ثبوت پراسیکیوشن کے بجائے ملزم پر ڈالا گیا ہے اور عوام اس نقطے کو سمجھتے ہوئے نواز شریف کی نااہلی سے لے کر احتساب تک سارے عمل کو انتقامی کارروائی قرار دے رہے ہیں۔ سیدھی سی منطق ہے کہ اگر آپ میں سے کسی سے بھی محض پچھلے پندرہ سال کی آمدنی کی تمام ٹرانزیکشنز کو کاغذات کے ذریعے عدالت میں ثابت کرنے کا کہا جائے تو شاید ملازمت پیشہ افراد جو بنکوں کے ذریعے اپنی تنخواہ وصول کرتے ہیں وہ بھی اپنی ذرائع آمدنی کا خرچ اور اثاثوں کی ٹرانزیکشن ثابت نہیں کر سکیں گے۔
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ابلاغ کی موجودگی میں نواز شریف کو مائنس کرنا اتنا آسان نہیں
خیر فی الحال صورتحال کچھ یوں ہے کہ نواز شریف کو سیاست سے عدالتی فیصلوں کے دم پر سیاسی اکھاڑے سے باہر پھینکنے کے باوجود بھی انہیں نہ تو سیاست سے مائنس کیا جا سکا ہے اور نہ ہی ان کا اثر و رسوخ ان کی اپنی جماعت کی فیصلہ سازی کے حوالے سے کم ہوا ہے۔ ماضی میں "فرشتوں" کی جانب سے بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو مائنس کرنے کے ناکام فارمولوں کے باوجود یہ گھسا پٹا فارمولا پھر سے لاگو کرنے کی کوشش کرنا اس امر کا ثبوت ہے کہ ایسٹیبلشمنٹ نے بدلتے ہوئے حالات و واقعات کو سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ ماضی کے برعکس اب وطن عزیز میں محلاتی سازشوں یا گھسے پٹے احتساب کے چورن کو بیچنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے اور اس کی بڑی وجہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ابلاغ کی موجودگی اور عوام کے ایک اچھے خاصے حصے میں سیاسی شعور کی بلوغت ہو سکتی ہے۔
نوازشریف نااہل ہو کر بھی اپنی جماعت کو انتخابات میں سادہ اکثریت دلوا سکتا ہے
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن قوتوں نے عدلیہ کے کاندھے پر بندوق رکھ کر نواز شریف کا شکار کیا، کیا وہ آسانی سے پیچھے ہٹتے ہوئے نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کو مزید مضبوط بناتے کا موقع دیتے ہوئے اگلے عام انتخابات میں مسلم لیگ نواز کو لیول پلئنگ فیلڈ مہیا کریں گی؟ کیونکہ نوازشریف نااہل ہو کر بھی اس وقت اتنی عوامی مقبولیت ضرور رکھتا ہے کہ وہ اپنی جماعت کو اگلے عام انتخابات میں بھی سادہ اکثریت باآسانی دلوا سکتا ہے۔ یعنی حالات و واقعات کا جائزہ لیا جائے تو اگلے عام انتخابات کا انعقاد کم سے کم نواز شریف کی جماعت کےحصے بخرے کیے بنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ لیکن قباحت یہ ہے ماضی کے برعکس موجودہ مسلم لیگ نون میں چودھری برادران اور شیخ رشید جیسے موقع پرست اور اسٹیبلشمنٹ کی جھولی میں بیٹھنے والے سیاستدان نہ ہونے کے برابر ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عام انتخابات میں صرف ڈیڑھ ماہ رہنے کے باوجود جنوبی پنجاب سے چند موسمی پرندوں کو ہائی جیک کرنے کے علاوہ اور کہیں بھی مسلم لیگ نون کے حصے بخرے نہیں کیے جا سکے۔
چودھری برادران کا سیاسی انجام سیاستدانوں کیلئے نشان عبرت ثابت ہوا ہے
عمران خان اور تحریک انصاف کی عام انتخابات میں جیت کا شوشہ چھوڑنے والے دراصل ٹی وی سٹوڈیو میں بیٹھ کر افواہیں پھیلاتے پیراشوٹ اینکرز اور خاکی گملوں سے نکلے دانشور پنجاب کی انتخابی سیاست کے حقائق سے نابلد ہیں۔ چودھری برادران کا سیاسی انجام اکثر و بیشتر وفاداریاں تبدیل کرنے والے سیاستدانوں کیلئے نشان عبرت ثابت ہوا ہے اور پنجاب کی انتخابی سیاست کے پیشہ ور کھلاڑی جانتے ہیں کہ نواز شریف سے انتخابات کے ذریعے پنجاب چھیننا ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مشکل وقت میں بھی یہ سیاستدان مسلم لیگ نواز اور نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یعنی جب تک کہ انتخابات کو مؤخر کر کے کوئی ٹیکنو کریٹ حکومت لانے کا انتہائی اقدام نہیں اٹھایا جاتا، اس وقت تک مسلم لیگ نون میں سے کسی بہت بڑے حصے کا الگ ہو کر ایک نئی جماعت بنانے یا کسی دوسری جماعت میں ضم ہونے کا امکان ایک دیوانے کے خواب سے بڑھ کر اور کچھ بھی نہیں ہے۔
تحریک لبیک کا آگے آنا، اور سمیع الحق کے بیٹے کو تحریک انصاف کا ٹکٹ دینا کیا ثابت کرتا ہے؟
آخری حربہ اور ہتھیار روایتی اور آزمودہ مذہبی کارڈ بچا ہے اور اس کارڈ کو استعمال کرنے کا عمل پچھلے برس سے مولوی خادم حسین رضوی کے ذریعے شروع کیا جا چکا ہے۔ تحریک لبیک کے زریعے اسلام آباد دھرنا اور مذہبی رجحان والے ووٹر کی نظر میں نواز شریف اور اس کی جماعت کو دین اور ناموس رسالت کیلئے خطرہ قرار دینا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ تحریک طالبان کے گاڈ فادر اور اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے مولوی سمیع الحق اور عمران خان کا انتخابی اتحاد اس سلسلے کی ایک اور کڑی دکھائی دیتی ہے۔ مولوی سمیع الحق کے بیٹے کو تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی کی نشست کا ٹکٹ بھی جاری کروایا جا چکا ہے۔ یعنی اسٹیبلشمنٹ اپنے ترکش کے تمام تیر چلانے کے بعد اب بسمل کے گھائل ہو کر تڑپ تڑپ کر مرنے کا نظارا دیکھنا چاہتی ہے اور ساتھ یہ توقع بھی کرتی ہے کہ نواز شریف ان پر تنقید نہ کرے اور عدالتوں کے فیصلے بھی خاموشی سے قبول کرے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں مرنے والا نہ تو جان بچانے کی کوشش کرے اور نہ ہی آہ و بکا مچائے، بس چپ چاپ اسٹیبلشمنٹ کی چھری تلے اپنی گردن رکھ کر حلال ہو جائے۔
نااہل نواز شریف وزارت عظمیٰ کی کرسی پر فائز نواز شریف سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتا دکھائی دے رہا ہے
نواز شریف کا پاکستان میں جیل سے باہر موجود رہ کر انتخابی مہم کو لیڈ کرنا نہ صرف اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کی مزید تقویت کا باعث بنے گا بلکہ اس لڑائی میں شاید اسٹیبلشمنٹ کی وقتی پسپائی کا باعث بھی بنے گا۔ نااہل نواز شریف وزارت عظمیٰ کی کرسی پر فائز نواز شریف سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر موجود نواز شریف سمجھوتوں کی بیساکھی کے سہارے چلنے پر مجبور تھا، جبکہ نااہلی کے بعد کا نواز شریف مکمل طور پر اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کا علم تھامے ملکی اسٹیبلشمنٹ کو مشکل وقت دیتا دکھائی دیتا ہے۔ سیاسی تاریخ پر نگاہ رکھنے والے جانتے ہیں کہ نواز شریف اقتدار کی سیاست سے زیادہ اچھی سیاست اپوزیشن کی کرتا ہے اور اس کو نااہل کر کے اپوزیشن کی سیاست پر مجبور کرنے والے اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصے نے خود نواز شریف کو ایک طرح سے فرنٹ فٹ پر کھییلنے کی بنیاد فراہم کر دی ہے۔ اس طاقت کی جنگ میں نواز شریف جیتے یا ہارے لیکن اس نے پنجاب جیسے روایتی اسٹیبلشمنٹ کے حامی صوبے میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کی بنیاد رکھ کر اپنی جماعت اور مریم نواز کو موجودہ عالمی اور ملکی سیاست کے تناظر میں آنے والے دنوں میں ایک مستحکم سیاسی پوزیشن عطا کر دی ہے۔
مسلم لیگ نواز 2013 کے انتخابات سے زیادہ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگی
نواز شریف کو نااہل کروانا شاید اسٹیبلشمنٹ کی سب سے بڑی بے وقوفی تھی اور اس حقیقت کا ادراک اسے آنے والے وقتوں میں ہو جائےگا۔ انتخابات میں نواز شریف کی جماعت جیتنے کیلئے اس قدر پریقین ہے کہ سینیٹر مشاہدالله خان اور دیگر مرکزی قائدین نے دوران گفتگو راقم کو بتایا ہے کہ اس بار وہ اور ان کی جماعت گذشتہ عام انتخابات سے زیادہ مستحکم پوزیشن پر ہیں اور اگر پولنگ ڈے پر نتائج کو مینیج نہ کیا گیا تو مسلم لیگ نواز 2013 کے انتخابات سے زیادہ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگی۔
خفیہ سرویز کے مطابق جنوبی پنجاب کے فصلی بٹیروں کے سربراہ خسرو بختیار بھی خود اپنی نشست جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں
اس دعوے میں کتنا دم ہے یہ توعام انتخابات کے موقع پر ہی پتہ چلے گا لیکن پنجاب میں پس پشت قوتوں اور تحریک انصآف کی کمزور پوزیشن کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ نواز اور دیگر جماعتوں کے حلقوں میں جیت کے متعلق کروائے گئے خفیہ سرویز کے مطابق جنوبی پنجاب کے فصلی بٹیروں کے سربراہ خسرو بختیار بھی خود اپنی نشست جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ نواز شریف کو انتقام نشانہ بنانا پس پشت قوتوں کی بہت بڑی غلطی تھی اور اس غلطی کو نواز شریف نےمجھے کیوں نکالا اور ووٹ کو عزت دو کے بیانیوں کی مقبولیت کی صورت میں کیش کرواتے ہوئے نہ صرف اپنا ووٹ بنک بڑھایا ہے بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی عمل میں رخنہ ڈالنے اور انہیں انتقام کا نشانہ بنانے میں پس پشت قوتوں کا ہاتھ ہے۔ شاید نواز شریف کی نااہلی پنجاب میں مسلم لیگ نواز کی انتخابی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کرے گی اور اس کا سہرا می لارڈ، ان کے پانامہ بنچ کے ساتھیوں اور پس پشت قوتوں کو جائے گا۔
کالم نگار
مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔