'اسلامی جمہوری اتحاد' کی حکومت
1990 کے الیکشن میں اسلامی جمہوری اتحاد نے واضح برتری حاصل کی اور حکومت تشکیل دی۔ ان انتخابات سے پہلے حساس اداروں نے مختلف سیاستدانوں میں کروڑوں روپے تقسیم کیے جن کی تفصیل سپریم کورٹ کے مہران بنک کیس والے فیصلے میں موجود ہے۔ اس بندر بانٹ کا آغاز جنرل اسلم بیگ کے ذریعے ہوا، جن کی ہدایات پر بینکار یونس حبیب نے 14 کروڑ روپے ایک فوجی اکاؤنٹ میں جمع کروائے۔ اس رقم میں سے چھے کروڑ صدر غلام اسحاق خان کے الیکشن سیل کو دیے گئے اور آٹھ کروڑ آئی ایس آئی کے اکاؤنٹ میں چلے گئے۔ جن حضرات کو یہ پیسے فراہم کیے گئے، ان میں نواز شریف، الطاف حسین، فاروق لغاری، جاوید ہاشمی، سرتاج عزیز، محمد خان جونیجو، پیر پگاڑا، عابدہ حسین، آفتاب شیر پاؤ، انور سیف اللہ کے نام شامل تھے۔ یاد رہے کہ خفیہ اداروں کے ذریعے سیاستدانوں کو انتخابات کے لئے نوازے جانے کی رسم بھٹو صاحب کے دور میں شروع ہوئی اور پہلی دفعہ یہ حربہ سن 1977 کے انتخابات میں آزمایا گیا تھا۔
قومی اسمبلی کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد نے 206 میں سے 105 نشستیں جیتیں جبکہ پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں محض 45 نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکیں۔ پنجاب میں اتحاد نے واضح کامیابی حاصل کی اور غلام حیدر وائیں کو وزیر اعلیٰ منتخب کیا گیا۔ سرحد میں اسلامی جمہوری اتحاد نے عوامی نیشنل پارٹی کے تعاون سے حکومت قائم کی اور میر محمد افضل وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔
سندھ میں پاکستان جمہوری اتحاد (جس میں پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتیں شامل تھیں) نے سب سے زیادہ نشستیں جیتیں لیکن جام صادق علی کی 'سیاست' کے باعث حکومت اسلامی جمہوری اتحاد اور مہاجر قومی موومنٹ نے قائم کی۔
نواز شریف کا سیاست میں داخلہ
مسلم لیگ نواز (اور اس سے قبل اسلامی جمہوری اتحاد) کے قائد نواز شریف اور ان کے خاندان کا سیاست میں داخلہ 80 کی دہائی کے آغاز میں پنجاب کے فوجی گورنر جنرل غلام جیلانی کے ذریعے ہوا۔ بھٹو صاحب کی صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی کے ہاتھوں نقصان اٹھانے والے میاں محمد شریف کے لئے ضیاالحق کی آمد ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی۔ ضیا کے نافذ کردہ گورنر کو لاہور میں گھر بنانے کا موقع ملا تو میاں محمد شریف نے یہ ذمہ داری قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس گھر کی تعمیر کے دوران جنرل صاحب کی ملاقات میاں شریف کے ایک صاحب زادے سے ہوئے، جس نے جنرل صاحب کو بہت متاثر کیا۔ جب پنجاب میں سویلین کابینہ بنانے کا وقت آیا تو بڑے میاں صاحب نے اپنے فرزند کے لئے سفارش کی۔ جنرل صاحب کی طرف سے میاں شریف کے فرزند شہباز کو وزیر خزانہ بنانے کا حکم جاری کیا گیا۔ اس پر میاں شریف بہت سٹپٹائے کیونکہ انہوں نے تو دراصل اپنے بیٹے نواز کے لئے سفارش کی تھی اور شہباز نے کاروبار سنبھالا ہوا تھا۔ بہرحال میاں صاحب کی کوشش رنگ لائی اور نواز شریف نے صوبائی وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالا۔
نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں صدر اور وزیر اعظم کے مابین چپقلش جاری رہی اور تنازع کی وجہ ایک بار پھر فوج اور اس کے سربراہ کی تقرری تھی۔ پہلی خلیجی جنگ میں الٹے سیدھے بیانات اور مشورے دینے کے باعث نواز شریف نے جنرل حمید گل اور اسلم بیگ سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ سے تین ماہ قبل ہی ان کے جانشین کا اعلان کر دیا گیا، جو کہ اسلم بیگ کی خواہشات کے برعکس تھا۔ اسی طرح حمید گل کو کور کمانڈر کی جگہ واہ کینٹ میں اسلحہ خانے کی سربراہی کی پیشکش کی گئی جو اس نے ٹھکرا دی اور ریٹائرمنٹ حاصل کی۔
نواز شریف اور فوج کے مابین اختلافات
نواز شریف نے کچھ عرصے بعد فوج کے چنگل سے آزادی کی کوشش کی تو ان کے پر کاٹنے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ اس ضمن میں چودھری نثار اور بریگیڈیر امتیاز عرف بِلّا نے جنرل آصف نواز کو قابو میں کرنے کی کوشش کی جس میں وہ ناکام رہے۔ آصف نواز کی حادثاتی وفات کے بعد صدر صاحب نے وزیر اعظم نواز شریف کی خواہش کے برعکس جنرل وحید کاکڑ کا تعین بطور آرمی چیف کیا۔ نواز شریف لیفٹننٹ جنرل اشرف کو آرمی چیف بنانا چاہتے تھے لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی۔ نواز شریف نے جواب میں آٹھویں ترمیم کے خاتمے کی صدا سینیٹ میں بلند کی۔
نواز حکومت برخاست
وزیر اعظم کے اس اقدام پر صدر صاحب خوب تلملائے اور انہوں نے بینظیر صاحبہ سے رابطہ کیا، ان کے خلاف مقدمات ختم کروائے اور اسمبلی کے چنیدہ ممبران کو استعفے جمع کرانے کا اشارہ دیا۔ 17 اپریل 1993 کو وزیر اعظم نے قوم سے ایک جذباتی خطاب کے دوران یہ عہد کیا کہ وہ اسمبلی برخاست نہیں کریں گے، اور استعفا بھی نہیں دیں گے۔ اگلے ہی روز صدر صاحب نے شریف الدین پیرزادہ سے مشورہ کرنے کے بعد کرپشن، اقربا پروری، نااہلی کے الزام کے تحت نواز حکومت برخاست کر دی اور بلخ شیر مزاری کو نگران وزیر اعظم مقرر کیا۔
نگران حکومت بینظیر صاحبہ کی مرضی سے تشکیل دی گئی اور اس میں ان کے شوہر آصف زرداری بھی شامل تھے۔ ایک موقعہ پر نگران کابینہ میں تریسٹھ (63) وزیر موجود تھے۔ اس دوران نواز شریف نے اپنی برطرفی کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل جمع کروائی اور سپریم کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا (صرف ایک جج، جسٹس سجاد علی شاہ نے فیصلے سے اختلاف کیا)۔ حکومتی دھینگا مشتی کے دوران پنجاب میں منظور وٹو نے غلام حیدر وائیں کی جگہ وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھال لیا۔ وفاقی حکومت کی بحالی پر نواز شریف نے پرویز الہٰی کو وزارت اعلیٰ سونپنے کا فیصلہ کیا۔ وٹو صاحب نے گورنر کو مشورہ دیا کہ پنجاب حکومت برخاست کر دی جائے جبکہ ارکان اسمبلی نے وزیر اعلیٰ کے خلاف قرارداد عدم اعتماد کی کارروائی شروع کرنے کا نوٹس گورنر کو بھیج دیا۔ گورنر نے وزیر اعلیٰ کے مشورے کی بنیاد پر اسمبلی کو معطل قرار دیا۔ پرویز الٰہی نے گورنر کے فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے گورنر کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پنجاب اسمبلی کی بحالی کا حکم جاری کیا۔
وزیر اعلیٰ وٹو نے عدالت کا حکم نامہ جاری ہونے کے کچھ گھنٹے بعد ہی دوبارہ گورنر الطاف حسین کو پنجاب اسمبلی برخاست کرنے کی سفارش بھیج دی جو انہوں نے منظور کر لی۔ اس صورت حال کے پیش نظر وفاقی حکومت نے آئین کی شق 234 کے تحت صوبے کا اختیار سنبھالنے کا حکم جاری کیا۔ وفاق کی جانب سے صوبے کا اختیار سنبھالنے کے لئے ایک نمائندہ مقرر کیا گیا اور رینجرز کو حکم دیا گیا کہ گورنر اور صوبائی پولیس کو بے دخل کر دیا جائے۔ صدر اسحاق نے اس حکم کی آئینی حیثیت ماننے سے انکار کیا اور گورنر کو حکم دیا کہ وفاق کی کارروائیوں کے خلاف مزاحمت کی جائے۔ سرحد اسمبلی میں بھی اسی طرز کا کھیل کھیلا گیا۔
فوج نے اب کھلم کھلا میدان میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا۔ کور کمانڈروں کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وزیر اعظم اور صدر کو فارغ کیا جائے اور دوبارہ انتخابات کروائے جائیں۔ 18 جولائی 1993 کو صدر اور وزیر اعظم نے استعفا دیا اور سینیٹ کے سربراہ وسیم سجاد نے قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھالا۔ اکتوبر 93 میں قائم مقام حکومت کی زیر نگرانی نئے انتخابات کروائے گئے۔
نئی حکومت، پرانے اسباق
نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں پرانے اسباق دہرائے گئے۔ آصف زرداری کو مسلسل جیل کاٹنی پڑی، نجکاری (Privatization) کی لہر تلے بہت سی بے ضابطگیاں بھی بہہ گئیں اور اپنے قریبی رفقا کو خوب نوازا گیا۔ صوبوں کے مابین پانی (Water Apportionment Act 1991) اور مال (نیشنل فائنانس کمیشن) کے معاہدوں میں ایسے وعدے کیے گئے جن کو پورا کرنا ناممکن تھا۔ سکریپ پر لگنے والا ٹیکس کم کر دیا گیا۔ باہمی تعاون پر مبنی کمپنیوں (Cooperative Finance Corporations) کے زوال کے باعث لاکھوں لوگ متاثر ہوئے اور نواز حکومت کی ساکھ میں کمی آئی۔ اسی دور میں آغا حسن عابدی کے قائم کردہ بینک BCCI کی بے ضابطگی کی داستان سامنے آئی اور اسے زبردستی بند کر دیا گیا۔ اس بینک کو امریکی سی آئی اے نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا اور افغان جنگ ختم ہوتے ہی بینک کے خلاف شواہد اور ثبوت ملنا شروع ہو گئے۔
نواز حکومت کے چند افسوسناک اقدامات
نواز حکومت کے کئی شرمناک کارناموں میں سے ایک کارنامہ وہ قانون پاس کرنا بھی تھا جس کے تحت نظریہ پاکستان کے خلاف بات کرنے پر دس سال قید کی سزا مقرر کی گئی اور توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کر کے قید کی جگہ موت کی سزا معین کی گئی۔ اس دور میں پہلی دفعہ شناختی کارڈ پر مذہب کا خانہ مقرر کیا گیا۔ پنجاب میں امن وامان کی خراب صورت حال سے نمٹنے کیلئے آئین میں بارہویں ترمیم کے تحت دہشت گردی سے نمٹنے کی خاطر خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں۔
پہلے نواز دور میں اخبارات اور ان کے کارکنان کو سخت برے حالات دیکھنے پڑے۔ دی نیوز کے کامران خان کو ان کے دفتر کے باہر چھری سے قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ شیری رحمان کو مسلسل ہراساں کیا گیا اور جیل کی سیر بھی کروائی گئی۔ ظفر عباس، غلام حسین اور شاہین صہبائی کے بیٹوں کو مار پیٹ کا نشانہ بنایا گیا۔ مہاجر جماعت کے بارے میں لکھنے کے باعث ظفر عباس کے گھر پر سات مسلح افراد نے حملہ کیا، ان کو اور ان کے بھائیوں کو مارا اور گھر کا سامان توڑا۔ تکبیر کے مدیر صلاح الدین کے دفتر میں توڑ پھوڑ کی گئی اور ایک موقعے پر ان کے گھر کو آگ لگا دی گئی۔ اسی طرح ایک بار ہیرلڈ اخبار کی کاپیاں تباہ کر دی گئیں۔
سندھ میں امن امان کی صورت حال کو فوج کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا اور کراچی میں فوج نے مہاجر جماعت کو خصوصی نشانہ بنایا۔ کراچی میں مہاجر قومی جماعت پر قابو پانے کے لیے آئی ایس آئی کے لیفٹننٹ کرنل عبیداللہ کے زیر نگرانی ایم کیو ایم حقیقی کا ڈول ڈالا گیا۔ جون 1991 میں فوج کے میجر کلیم الدین کو مہاجر قومی تحریک کے افراد نے چند ساتھیوں سمیت اغوا کر لیا (اس واقعے کے متعلق بہت سے شکوک وشبہات موجود ہیں اور حالات سے واقف لوگوں کے مطابق یہ محض ایک ٹوپی ڈرامہ تھا جو 'حساس اداروں' نے رچایا)۔ اس واقعے کو جواز بنا کر 1992 میں فوج نے کراچی میں آپریشن کیا اور اس واقعے کی ایف آئی آر میں مہاجر جماعت کے سربراہ الطاف حسین کو نامزد کیا گیا۔
نواز حکومت کے اس دور میں پاکستانی حساس ادارے کے سربراہ جاوید ناصر (جنہیں برگیڈیر امتیاز کی سفارش پر ترقی دی گئی تھی) نے بوسنیا، چین، فلپائن اور وسطی ایشائی ممالک میں لڑنے والے علیحدگی پسندوں کو اسلحہ بھیجنے کا شرف حاصل کیا۔
ایک ہی حمام میں سب ننگے
اسلام آباد کے علاقے بنی گالا کو رہائشی علاقہ بھی اسی دور میں قرار دیا گیا۔ اس سے قبل وہ علاقہ نیشنل پارک کے زمرے میں آتا تھا۔ نجکاری کے نام پر میاں منشا کی قسمت کھل گئی اور نجکاری والے آدھے سے زیادہ یونٹ میاں منشا کو نوازے گئے۔۔ مسلم کمرشل بینک کی نجکاری کے موقعے پر سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو بوگس بنیادوں پر مسترد کر دیا گیا اور بارہ افراد کی ٹولی، جس میں میاں منشا شامل تھا، بینک نواز دیا گیا۔ اس سے قبل نواز شریف کی پنجاب میں حکومت کے دوران پسرور شوگر مل کو ایک روپے کی قیمت پر بیچا گیا تھا۔ نجکاری کی اس لہر میں 68 مختلف یونٹوں کی نجکاری کی گئی جن میں سے بیس یونٹ نئے مالکان کی نااہلی کے باعث بند ہو گئے۔ اسلام آباد اور لاہور کے درمیان موٹروے کی تعمیر کا آغاز سنہ 1992 میں کیا گیا۔
پہلے نواز دور میں پنجاب کو دوسرے صوبوں کے مقابلے میں غیر متناسب توجہ دی گئی اور یہی پہلو اس حکومت کے زوال کا باعث بنا۔ وفاقی کابینہ میں وزراء کی اکثریت کا تعلق پنجاب سے تھا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک برطرف حکومت بحال کی تھی لیکن پنجاب میں لالچ کرنے کی وجہ سے نواز شریف نے وفاقی حکومت بھی گنوا دی۔
قائم مقام وزیر اعظم معین قریشی نے نوے دن کی حکومت کے دوران ٹیکس دینے والے شہریوں کی فہرست شائع کروائی، بینکوں کے پانچ ہزار قرض نادہندگان کی فہرست شائع کروائی اور زراعتی آمدنی پر (عارضی) ٹیکس نافذ کرنے کا حکم دیا۔اسی طرح انہوں نے بینک دولت پاکستان، ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کو خود مختاری عطا کی۔ انہوں نے وزیر اعظم اور وزراء اعلیٰ سے سرکاری رہائشی پلاٹ عطا کرنے کا اختیار واپس لیا۔ اس سے قبل سرکاری پلاٹوں کو سیاسی وفاداری خریدنے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ قائم مقام وزیر اعظم نے پندرہ غیر ضروری وزارتوں اور دس سفارت خانوں کو بند کرنے کا حکم دیا۔
اپنے تمام تر نیک اقدامات کے باوجود معین قریشی صاحب حکومت کے آخری دنوں میں اپنے خاندان کے افراد کو مختلف سرکاری عہدوں پر تعیناتی یا ترقی کا تحفہ دیتے گئے۔ تاریخ نے اپنے آپ کو ایک دہائی بعد دہرایا جب 2008 میں قائم مقام وزیر اعظم محمد میاں سومرو نے اپنے خاندان کے لئے شاہانہ مراعات حاصل کیں۔